جنگ ابھی جاری ہے

1965ء کی جنگ کب ختم ہوئی ہے؟ یہ توتقسیم ہند سے لڑی جا رہی ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے پہلے روز سے حالت جنگ میں ہے۔ اس جنگ کا آغاز تو پاکستان کے قیام سے بھی قبل اس وقت ہو گیا تھا جب پاکستان میں مشمولا کئی علاقے بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔ کشمیرکو تقسیم ہند کے ہر قائدے، ضابطے اور قانون کے تحت پاکستان میں شامل ہونا تھا

بدھ 7 ستمبر 2016

Jang Abhi Jari Hai
مطلوب وڑائچ:
1965ء کی جنگ کب ختم ہوئی ہے؟ یہ توتقسیم ہند سے لڑی جا رہی ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے پہلے روز سے حالت جنگ میں ہے۔ اس جنگ کا آغاز تو پاکستان کے قیام سے بھی قبل اس وقت ہو گیا تھا جب پاکستان میں مشمولا کئی علاقے بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔ کشمیرکو تقسیم ہند کے ہر قائدے، ضابطے اور قانون کے تحت پاکستان میں شامل ہونا تھا۔

انگریز حکمرانوں اور ہندو سیاستدانوں نے کشمیر تک بھارت کی رسائی ممکن بنانے کیلئے کئی اضلاع پاکستان سے کاٹ کر انڈیا کا حصہ بنا دیئے۔ بھارت نے انہی اضلاع کے راستوں کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کیا اور آج تک اس قبضے کو مضبوط بناتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے پورے کشمیر پر قبضے کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔ تاہم اس کا جس حصے پر قبضہ تھا وہ پاکستان واگزار کرانے کیلئے کوشاں رہا مگر عالمی سازشوں نے پاکستان کے مقاصد پورے نہ ہونے دیئے اور کچھ ہمارے حکمرانوں کی کشمیر پر کمٹمنٹ بھی وہ نہیں تھی جو قائداعظم کی تھی۔

(جاری ہے)

قائداعظم کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو قوت بازو سے کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے کمٹڈ نظر آئے، انہوں نے بطور وزیر خارجہ 1965ء میں مسئلہ کشمیر کا قضیہ طے کرانے کیلئے ایوب خان کو آپریشن جبرالٹر پر آمادہ کیا۔ اس آپریشن نے جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت کو اسکی جارحیت کا جواب دینے کیلئے ہی ا یٹمی پروگرام کا آغاز کیا تھا جو ان کی شہادت کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا۔

65ء کی جنگ میں پاک فوج نے قوم کو ساتھ لے کر دشمن کو عبرت ناک شکست دی۔ اس کا بدلہ لینے کیلئے اس نے سازش کے ذریعے پاکستان کو دولخت کر دیا مگر یہ جنگ پھر بھی رْکی نہیں کسی اور انداز میں جاری ہے۔جو آج پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ جی ہاں! آج پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کیخلاف جنگ65ء کی جنگ کا تسلسل ہے۔ 65ء کی جنگ بھارت نے بارڈر پر لڑی آج کی جنگ وہ پاکستان کے اندر لڑ رہا ہے۔

71ء میں اس نے باہر سے مشرقی پاکستان میں گھس کر پاکستان کو توڑا آج اسے اس طرح گھسنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے پاکستان کے اندر ہی مکتی باہنی بنا دی ہے۔ اسے پاکستان کے اندر ہی سے پالتو مل گئے یہ نہ صرف کھاتے پاکستان کا ہیں بلکہ اقتدار تک کے سنگھاسن پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ انکی نشاندہی ڈاکٹر طاہر القادری تحریک قصاص کے اجتماعات میں کرتے رہتے ہیں۔

16اگست کو تحریک قصاص کے پہلے مرحلے کا دوسرا فیز تھا کہ اس سے چند روز قبل کوئٹہ میں اہم ترین وکلاء کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر عوامی تحریک نے اپنا 16اگست کا احتجاج شہداء سے اظہار یکجہتی کیلئے منسوخ کر دیا۔ 3ستمبر کو عوامی تحریک او رپی ٹی آئی کی ریلیوں کا اعلان ہو چکا تھا۔ تیاریاں جاری تھیں کہ دو روز قبل ورسک کالونی پشاور اور مردان میں خودکش حملوں کی سازش کی گئی۔

ورسک میں 4دہشتگرد نہ مارے جاتے تو کالونی میں ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مردان اس روز خودکش حملوں میں 12افراد شہید ہوئے۔بلاشبہ یہ ایک سازش تھی جس کا مقصد تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو احتجاج سے روکنا تھا یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ورسک کالونی میں دہشتگرد اپنے آقاوٴں کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ٹھہرے ۔

انکے آقا کون ہیں؟ جو بھی ہیں ان کی گردن پر فوج کا انگوٹھا ہونا چاہیے۔ پاکستان یہ جنگ اندر موجود دشمن کا قلع قمع ہونے ہی سے جیت سکتا ہے۔ اگر حکومت اور پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کون ملوث ہے تو یقینا خفیہ اداروں اور فوج کو تو ان سے بڑھ کر علم ہو گا مگر آئین آڑے آ جاتا ہے۔ یہ خود موازنہ کر لیں کہ آئین اور ریاست میں سے ایک کی بقا ناگزیر ہو تو اسے کس طرف جانا ہو گا۔

میں 3 ستمبر کی نہ صرف ریلی میں شامل تھا بلکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ انکی گاڑی میں جلسہ گاہ تک پہنچا، ہمارے ساتھ حسین محی الدین بھی تھے۔ میں بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں رہا ہوں انکے بڑے بڑے جلسے دیکھے تاہم تین ستمبر جیسا اجتماع میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔
65ء کی جنگ سے دشمن کے منصوبے خاک میں ملانے کیلئے پاک فوج اور عوام ہمقدم تھے۔

بھارت نے آپریشن جبرالٹر کے جواب میں پاکستان پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک ہوا کہ پاک فوج کو الرٹ ہونے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ بھارتی فوجیوں کو کہا گیا تھا کہ فتح کا پورا انتظام کر لیا گیا ہے۔ لاہور پر چند گھنٹے میں قبضہ ہو جائے گا۔ جم خانہ میں رقص و سرود کی محفل سجانے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا تھا۔ جس کے دعوت نامے باقاعدہ تقسیم ہو چکے تھے جو جنگی قیدی بننے والے ایک فوجی افسر کی جیب سے برآمد بھی ہوا تھا مگر پاک فوج نے انکی پلاننگ خاک میں ملا دی دشمن کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔

اپنے سے تعداد اور اسلحہ کی مقدار میں کئی گنا بڑی فوج کو شکست سے دو چار کرنا پاک فوج کا عظیم کارنامہ تھا۔ یہ کارنامہ فوج نے قوم کے تعاون سے سرانجام دیا۔ مشرقی پاکستان میں 71ء کی جنگ میں قوم پشت سے ہٹ گئی تھی اکثر بنگالی غداری کے مرتکب ہوئے، جو محب وطن تھے ان کی تعداد قلیل تھی انہیں اب پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ گذشتہ روز میر قاسم علی کو اس جرم کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی کہ انہوں نے اس دور میں مادرِ وطن کی حفاظت کی کوشش کی تھی جب آئین کے مطابق ایسا کرنا ان پر فرض تھا۔

یہ لوگ الشمس اور البدر کی صورت میں پاک فوج کے شانہ بشانہ تھے۔ آج پاکستان کی طرف سے ان کی پھانسیوں پر صرف اظہار افسوس کیا جاتا ہے۔
اس وقت ملک کے اندرونی حالات اور بیرونی سرحدیں محفوظ نہیں، دہشتگردوں کو جیسے کھلی چھٹی ہے ۔ملک کی نظریاتی سرحدیں بھی محفوظ نہیں اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہم اب بھی حالاتِ جنگ میں ہیں اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں نہ ملا دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔