عالمی و ملکی مالیاتی اداروں کا کردار

گذشتہ دنوں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اپنے دورہ میں انہوں نے پاکستانی معیشت کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سرپرست امریکیوں کی طرح پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ بھی کرتے ہوئے کہاکہ" ابھی معیشت کی بہتری کیلئے بہت کچھ کرنا باقی ہے ، کرپشن سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے ، ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے کام کرنا ہوگا اور توانائی کے شعبہ میں اصلاحات لانی ہوں گی"۔

بدھ 2 نومبر 2016

Aalmi or Mulki Malyati Idaroon Ka Kirdar
شیخ منظر عالم:
گذشتہ دنوں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اپنے دورہ میں انہوں نے پاکستانی معیشت کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سرپرست امریکیوں کی طرح پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ بھی کرتے ہوئے کہاکہ" ابھی معیشت کی بہتری کیلئے بہت کچھ کرنا باقی ہے ، کرپشن سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے ، ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے کام کرنا ہوگا اور توانائی کے شعبہ میں اصلاحات لانی ہوں گی"۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج کے دور میں ملکی ترقی میں بینکوں کا بڑا اہم کردارہوتا ہے۔ اس وقت یہ بینک دو طریقوں سے چل رہے ہیں۔ ایک عالمی اور ریجن کی سطح پر جیسے آئی ایم ایف اور ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ اور دوسرے ملکی سطح پر جیسے تجارتی بینک لیکن دونوں کا بنیادی کردار ایک ہی جیسا ہے۔

(جاری ہے)

عالمی مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک کے سربراہوں کو دلفریب نعرؤں سے رام کرکے انکے ذریعے ملکوں کو گروی رکھ رہے ہیں جیسا کہ اس وقت ہمارے ملک پر ضرورت سے ذیادہ نظر کرم ہورہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کو دنیا کا دوسرا اور ایشیاء کا پہلا یونان بنادیا جائے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد چند مختصر جوشعبے مضبوط ہوئے اس میں بینکاری کا شعبہ سرفہرست تھا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ خوش قسمتی سے اس شعبہ کوخالصتاً پروفیشنل اور تجربہ کار افرادمیسر آگئے تھے جن کی قابلیت اور صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان میں بینکاری کا شعبہ مضبوط ہوا اورترقی کی حالانکہ اس وقت صرف تین چار گروپ بینکاری نظام سے وابستہ تھے جن میں حبیب فیملی سرفہرست ہے جنہوں نے1941میں حبیب بینک لمیٹڈ کی داغ بیل بمبئے( برٹش انڈیا) میں ڈال دی تھی مگر 1947میں پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کی ایماء پر اپنے بینک کا ہیڈ آفس کراچی میں منتقل کیا، اسکے علاوہ سر آدم جی حاجی داؤدنے 9جولائی 1947میں مسلم کمرشل بینک (MCB) کے نام سے ایک بینک کی بنیاد رکھی اور آغا حسن عابدی صاحب نے 1959میں یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ(UBL) کا قیام عمل میں لائے۔

انہی قابل اور صلاحیتوں سے بھرپور لوگوں کی بینکاری نظام میں موجودگی کے باعث دوسرے شعبوں میں خرابی و تنزلی کے باوجودبینکاری کے شعبہ میں کچھ خاص فرق نہ پڑا۔ مگر جب 2003-2004میں ایک بینکارپہلے ملک کا وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعظم بنا تو اس نے جمعہ بازار کی طرح بینک کھولنے کے لائسنس جاری کئے جس کی وجہ سے کئی بیرونی بینک بھی پاکستان آئے اور پاکستان میں ان سرمایہ داروں کو بھی بینک کھولنے کے لائسنس دئیے گئے جن کا بنیادی کام بینکوں سے قرضے لے کر بیرون ملک منتقل کرنا ہوتا تھا۔

ان ہی جیسے لوگوں کو بینکوں کا مالک بنادیا گیا جیسے مشہور ہے کہ دودھ کی رکھوالی پر بلے کو بٹھا دیا گیا ہو۔ پھر میری یہ پیشن گوئی 2008سے ہی پوری شروع ہوگئی جب پہلے بیرونی بینک اپنا سارا سرمایہ لپیٹ کر ملک سے چلے گئے حتیٰ کہ بینکار وزیر اعظم کا مدربینک سٹی بینک بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلا گیا جس نے کنزیومر فائنانسنگ کے نام پر پاکستانی عوام کو ایسے نشے میں مبتلا کیا تھاکہ جس کے نتیجے میں لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اورجس کا نوٹس پاکستانی عدالتوں کو لینا پڑا تھا۔

پھر دوسری طرف بینک بھی ایک دوسرے میں ضم ہونے لگے۔ بینکوں کی اسی بے لگام پالیسیوں کی وجہ سے بینک آہستہ آہستہ پولیس تھانوں کا کردار ادا کرنے لگے اور بینک منیجرز تاجروں وصنعتکاروں کو سہولیات دینے کے بجائے ایس ایچ او کا کردار ادا کرنے لگے اور بینکوں سے قرضہ لینا ایک ایسا جرم بن گیا جس کی سزا موت سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 2009کے بعد پاکستانی صنعتیں بند ہونا شروع ہوگئیں اور وہ بتدریج وئیر ہاؤسز اور گوداموں میں تبدیل ہوتی گئیں۔

مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بینکاری کے شعبہ نے آج بھی اپنی خو نہیں بدلی ہے اور آج بھی وہ اسی روش پر قائم ہے اور ملک میں سرمایہ کار بڑھانے کے بجائے سرمایہ دار بنانے پر اور ارباب اختیار کو خوش کرنے میں مصروف ہے اور اپنے منافعوں میں روز افزوں اضافہ کررہا ہے۔ یقین نہیںآ تا ہے کہ جس قدر منافع بینک حاصل کررہے ہیں ایسا تو پاکستان میں کوئی منافع بخش شعبہ نہیں ہے۔

اس کا اندازہ آپ ان اعدادوشمار سے لگاسکتے ہیں کہ 2013میں تجارتی بینکوں کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع159ارب روپے تھاجو 2015 میں بڑھ کر 331ارب روپے ہوگیا ہے جس کی مثال پاکستان میں تو کیا دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔اسی لئے پاکستان میں شیڈول بینک اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کررہے ہیں ۔ستمبر2013میں شیڈول بینکوں کی انوسٹمنٹ 38.73کھرب روپے تھی جوکہ اب ستمبر 2016 میں 47.47فیصد اضافہ کے بعد 73.73 کھرب روپے ہوچکی ہے۔

اسی طرح مرکزی بینک کے منافع میں بھی اضافہ ہورہا ہے کیونکہ 2014 میں مرکزی بینک کا خالص منافع 311.81ارب روپے تھا جو 2015میں 22فیصد اضافہ کے بعد401.75 ارب روپے ہوگیا ہے۔اس کے علاوہ جب کبھی تجارتی بینکوں کو کوئی مشکل درپیش آتی ہے تو مرکزی بینک اس کی داد رسی کو پہنچ جاتا ہے اور ان کے منافع میں اضافہ کیلئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔جیسے 2013میں مرکزی بینک نے ایک سرکولر کے ذریعے بینک کے کھاتے داروں کو دی جانے والی کم از کم شرح منافع کو شرح سود کی راہداری سے منسلک کردیا ہے کہ اس سے بینکوں کو مزید من مانی کا موقع ملے اور بینکوں نے کھاتے داروں کا شرح منافع کم سے کم دے کر اپنی شرح منافع بڑھالی ہے۔

بینکوں کی ان ہی پالیسیوں کی وجہ سے 2013 سے جون 2016تک قرضوں کے مجموعی حجم میں 724 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کا نوے فیصد حکومتوں کا دیا گیا ہے جبکہ کھاتے داروں کو مختلف بجتوں میں کم سے کم منافع دے کر ٹرخایا جارہا ہے ۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ مانیٹرنگ کا مربوط نظام قائم ہے نہ سزاوجزا کا تصور ہے اور نہ ہی کسی شعبے میں کوئی احتساب کی روایت قائم ہے۔

لوٹنے والوں اور قرضے معاف کرانے والوں کی لسٹیں بھی جاری کی گئی ہیں اورنہ چھوڑنے کی قسمیں بھی کھائی گئی ہیں مگران جاگتی آنکھوں نے پاکستان میں کسی کا احتساب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور عملی طور پر عالمی مالیاتی ادارے جو سلوک پاکستان کے ساتھ کررہے ہیں وہی سلوک ملک کے اندر تجارتی بینک پاکستانی عوام کے ساتھ کررہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aalmi or Mulki Malyati Idaroon Ka Kirdar is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 November 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.