کرپشن کی سماجی وجوہات

قومی احتساب بیورو کی کرپشن کیخلاف بیداری شعور مہم کی ڈائریکٹر جنرل عالیہ رشید کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری افسران کی کرپشن کے پیچھے انکے خاندان خصوصاً بیوی بچوں کا سماجی دباؤ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے جب کسی بھی با اختیار اعلیٰ اور ادنی سرکاری ملازم کو اسکے بیوی بچے یہ بتاتے ہیں کہ انکے ملنے جلنے والوں کے پاس بڑے بڑے بنگلے اور مہنگی پرتعیش گاڑیاں ہیں

جمعہ 20 جنوری 2017

Corruption Ki Samaji Wujohaat
نعیم قاسم:
قومی احتساب بیورو کی کرپشن کیخلاف بیداری شعور مہم کی ڈائریکٹر جنرل عالیہ رشید کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری افسران کی کرپشن کے پیچھے انکے خاندان خصوصاً بیوی بچوں کا سماجی دباؤ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے جب کسی بھی با اختیار اعلیٰ اور ادنی سرکاری ملازم کو اسکے بیوی بچے یہ بتاتے ہیں کہ انکے ملنے جلنے والوں کے پاس بڑے بڑے بنگلے اور مہنگی پرتعیش گاڑیاں ہیں اور وہ ہر سال بیرون ملک سیرو سپاٹے کیلئے جاتے ہیں۔

دوبئی، لندن اور امریکہ سے شاپنگ کرتے ہیں تو یہ باتیں سن کر وہ سرکاری ملازم ذہنی دباؤ میں آ جاتا ہے اور اپنے خاندان والوں کے سامنے ہیرو بننے کی خاطر سرکاری وسائل کی لوٹ مار شروع کر دیتا ہے اور اپنے اہل خانہ کی ناجائز خواہش پوری کرنے کیلئے کرپشن کی دلدل میں بری طرح پھنس جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر ہمارے ملک کے سرکاری افسروں کے بیوی بچے ناجائز خواہشوں کو پورا کرنے کیلئے اپنے خاوند اور باپ کا جذباتی استحصال نہ کریں تو اس ملک سے کرپشن 50 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔

عالیہ رشید کی باتوں میں جزوی طور پر صداقت ہے اسی لئے قرآن پاک میں مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ میں نے اعلیٰ ترین سرکاری آفسروں کو اپنے بیوی بچوں کے پرتعیش لائف سٹائل کی خاطر اس ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ 20 اور 22 گریڈ کے بے تحاشا افسران کے چار چار بچے لندن امریکہ کی ایسی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے ایک ایک سمسٹر کی فیس 60 ہزار ڈالرز تک ہے جبکہ والد صاحب حکومت کے انیسویں گریڈ کے ملازم کے طور پر ماہانہ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور بیرون ملک پڑھنے والے بچوں پر سالانہ 5 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں ۔

ایک اندازے کیمطابق اعلیٰ سول اور فوجی افسران جن کے گریڈ 19 سے لے کر 22 تک ہیں۔ 80 فیصد افسران کا شمار اسی کیٹگری میں آتا ہے ریونیو محکمے کا پٹواری، تحصیلدار اور ضلعی انتظامیہ کا چیف افسر، ڈپٹی کمشنر اور کسٹم کا سپرنٹنڈنٹ سے لے کر کلکٹر تک ہر افسر اپنی تنخواہوں اور مراعات کی نسبت 10 گنا زیادہ اخراجات کر رہا ہوتا ہے۔
اس پر مستزاد پنجاب حکومت نے بیورو کریسی کے متوازی سینکڑوں اتھاڑئیاں اور کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں جن میں تعینات حکمرانوں کے چہیتے تنخواہوں کی مد ہی میں ماہانہ 10 سے 20 لاکھ روپے بٹور رہے ہیں۔

پی آئی اے سرکاری بنکوں اور خود مختار اداروں کے اعلیٰ افسران سرکاری مراعات اور تنخواہوں کی صورت میں کروڑوں روپے ہتھیا رہے ہیں مگر ان محکموں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ مثلاً بہاولپور کے قائداعظم سولر انرجی پراجیکٹ میں چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تنخواہ 13 لاکھ روپے ماہوار ہے جبکہ سرکاری گریڈ کے لحاظ سے وہ محض ڈیڑھ لاکھ روپے ماہوار کے حق دار ہیں۔


پی آئی اے، واپڈا، کراچی سٹیل مل ریلوے زبردست خسارے کا شکار ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حکمران ان محکموں میں اپنے نا اہل اور کرپٹ عزیز و اقارب کو پرکشش پوسٹوں پر تعینات کروا دیتے ہیں جو نہ صرف لاکھوں روپے تنخواہوں اور مراعات کی صورت میں وصول کرتے ہیں بلکہ کروڑوں اربوں کا غبن کرنے کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ قانون کی گرفت میں آ بھی گئے تو نیب سے پلی بارگین کرنے کے بعد رہا ہو جائینگے۔

چاہے وہ ڈبل شاہ ہو ایڈمرل منصور الحق ہو، جنرل زاہد علی اکبر ہو یا مشتاق رئیسانی، وہ اربوں کی لوٹ مار کرنے کے بعد چند کروڑ قومی خزانے کو واپس کر کے دوبارہ معززین میں شمار ہونے لگتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ جج نے ریمارکس دیئے کہ ڈھائی سو روپے کی کرپشن کرنے والا چپراسی جیل کی سلاخوں میں چلا جاتا ہے جبکہ اربوں روپوں کی کرپشن کرنیوالے لٹیرے رشوت اور بدعنوانی کا 25 فیصد ادا کر کے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔

سندھ حکومت میں ایسے تمام کرپٹ افراد دوبارہ سرکاری ملازمتوں پر بھی بحال ہو چکے ہیں تاکہ دوبارہ سرکاری خزانے کی لوٹ مار کر کے اپنے نقصان پورا کر لیں۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ تم سے پہلے قومیں اسلئے تباہ ہوئیں کہ جرم کرنے پر امراء کو چھوڑ دیتی تھیں اور غریبوں کو پکڑ لیتی تھیں۔ آج ہمارے ملک کے لوگوں کے درمیان کرپٹ اور بدعنوان لوگ پوری آن بان کیساتھ رہتے ہیں مگر کوئی شخص بھی ان بے ایمان لوگوں کا سماجی بائیکاٹ نہیں کرتا ہے۔

لہٰذا بحیثیت مجموعی معاشرے میں لوگوں کی اکثریت کی روش بن چکی ہے کہ وہ رشوت خوروں اور ناجائز طریقوں سے مال بنانے والوں سے نفرت نہیں کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ بھیج کر ہمارے حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے ”ایڈمرل منصور الحق پاکستان نیوی کے سربراہ تھے۔ یہ 10 نومبر 1994ء سے لے کر یکم مئی 1997ء ہمارے ملک کے نیول چیف رہے تھے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ان پر 300 ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگا انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور انکے خلاف تحقیقات شروع ہو گئیں جس پر منصور الحق 1998ء سے ملک سے فرار ہو کر امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں پناہ گزیں ہو گئے اور ملک میں انکے خلاف مقدمات چلتے رہے۔
اس دوران امریکہ میں انٹی کرپشن قوانین پاس ہو گئے جس پر نیب نے امریکی حکومت کو خط لکھا اور وہ 17 اپریل 2001ء کو امریکہ میں گرفتار ہو گئے اور ان کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

انہیں جیل میں عام قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا وہ قیدیوں کا لباس اور سیلپر پہنتے تھے اور چھوٹی سے بیرک میں قید تھے ۔ اور انہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت لایا جاتا یہ ناروا سلوک ایڈمرل منصور الحق برداشت نہ کر سکے اور امریکی حکومت کو لکھ کر دے دیا کہ انہیں حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا جائے امریکی جج نے یہ درخواست منظور کر لی اور انہیں ہتھکڑی لگا کر جہاز میں سوار کر دیا گیا اور سفر کے دوران بھی ان کا ایک ہاتھ سیٹ سے بندھا رہا۔

مگر جب وہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے تو انکی ہتھکڑی کھول دی گئی وہ آئی پی لاؤنج سے ائرپورٹ سے باہر آئے نیوی کی شاندار گاڑی میں بیٹھ سہار ایسٹ ہاؤس پہنچے۔ سہالہ ریسٹ ان کیلئے سب جیل بنا دیا گیا۔ انہیں خانساماں بھی مہیا کر دیا گیا۔ بیگم اور اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت دیدی گئی۔ وہیں پر عدالت لگنے لگی۔ انہوں نے پلی بارگینگ کے ذریعے لوٹ مار کی کمائی کا 25 فیصد حکومت کو واپس کیا اور آج وہ سابق نیول چیف کے مکمل پروٹوکول کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

گالف اور برج کھیلتے ہیں شادیوں اور دیگر تقریبات میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ ہمارا مجرم جب تک امریکہ میں تھا۔ یہ وہاں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہا تھا لیکن یہ جونہی ہمارے ہاں آیا تو آج تک نہ صرف وہ آزاد زندگی گزار رہا ہے بلکہ وہ زندگی کی تمام سہولتوں سے لطف اندوز بھی ہو رہا ہے۔ یہ سب مزے پاکستان کے طبقہ اشرافیہ اور طاقتور افراد کو ہی حاصل ہیں جبکہ ایک ہزار روپے کا گھاس چرانے والا اس ملک میں 25 سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔ آج بھی 300 روپے سے 500 روپے کی رشوت کے الزام میں کئی کلرک جیل میں قید ہیں۔ سرکاری کالج کے ایک پرنسپل کو دو ہزار کا ٹیپ ریکارڈ خریدنے پر جیل جانا پڑا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Corruption Ki Samaji Wujohaat is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 January 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.