پاکستان اسٹیل مل اور نجکاری پالیسی

نیا خریدار تلاش کرنے میں ناکامی کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے اسٹیل مل کوچین یاایران کے حوالے وکرنے کافیصلہ بظاہردرست اقدام قرار دیاجارہا تھا لیکن ابراج گروپ کے اظہار دلچسپی کے باعث اب نئی بحث شروع ہوگئی ہے اورماہرین اس صورت حال کودلچسپ اورفیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ابراج گروپ کو اسٹیل مل کا انتظام سونپنے کی حمایت کی جارہی ہے

بدھ 7 دسمبر 2016

Pakistan Steel Mill
نیا خریدار تلاش کرنے میں ناکامی کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے اسٹیل مل کوچین یاایران کے حوالے وکرنے کافیصلہ بظاہردرست اقدام قرار دیاجارہا تھا لیکن ابراج گروپ کے اظہار دلچسپی کے باعث اب نئی بحث شروع ہوگئی ہے اورماہرین اس صورت حال کودلچسپ اورفیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ابراج گروپ کو اسٹیل مل کا انتظام سونپنے کی حمایت کی جارہی ہے۔

کیونکہ اس نے پاکستان کے مخصوص ماحول میں کے ای ایس سی کو کے الیکٹرک میں تبدیل کرکے ایک کامیاب کہانی لکھ ڈالی اورکے الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک کوفروخت خود اس ادارے اور ابراج کی کامیابی کوظاہرکرتی ہے اوریہ ثابت ہوتا ہے کہ ابراج گروپ اگر کے الیکٹرک منافع بخش کمپنی بناسکتاہے اور 17 سال بعد پہلی مرتبہ کے الیکٹرک اگر ابراج گروپ کے زیرانتظام آکرمنافع کمانے کے قابل ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

تو یقیناً اس گروپ کے پاس ایسی قابل اورباصلاحیت ٹیم اورقائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں جو اسٹیل مل جیسے خسارے میں چلنے والے ادارے کو نہ صرف خسارے سے باہرنکال سکتی ہے بلکہ ایک بار پھر اسے اپنے پیروں پرکھڑاکرکے منافع کمانے کے قابل بھی بناسکتی ہے۔ابراج گروپ کوترجیح دینے کے حامی حلقے یہ دلیل بھی دے رہے ہیں کہ اس گروپ کی قیادت ایک پاکستانی شخصیت عارف نقوی کے پاس ہے جو ابراج گروپ کے بانی اور چیف ایگزیکٹیوآفیسر ہیں وہ پیدائشی پاکستانی ہیں اور کراچی میں پلے بڑھے اورملکی معیشت کے سب سے بڑے مرکز اورصنعتی و تجارتی شہرکے مزاج اورطرز زندگی سے بخوبی آگاہ ہیں۔

کے الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک کوفروخت کے حوالے سے خود عارف نقوی کہہ چکے ہیں کہ یہ بہت بڑا سنگ میل ہے اوریہ بات ہرپاکستانی کے لئے خوشی اور اعزاز کا باعث ہونی چاہئے کہ اب امریکی یونیورسٹیز میں کے الیکٹرک کی ابراج گروپ کے زیر انتظام کامیابیوں کو ایک اسٹڈی کیس کے طورپر استعمال کیا جارہاہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں نجکاری کے عمل کا آغازکرنے والی شخصیت وزیراعظم نواز شریف ہی تھے جنہوں نے 1990ء میں پہلی مرتبہ برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں نجکاری کا اعلان کیا اوریہ عمل تیزی سے آگے بڑھایاان کے بعد جوبھی حکومت آئی اس نے نجکاری کے عمل کودرست تسلیم کیا اور اس عمل کوآگے بڑھانے میں اپناکردارادا کیا۔

ٹاپ سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹیو محمد سہیل کے مطابق اگر پاکستان اسٹیل مل اور پی آئی اے کونجکاری کے ذریعے ابراج گروپ کودے دیا جائے تو یہ دونوں نہ صرف محفوظ ہاتھوں میں چلے جائیں گے بلکہ بہت جلد خسارے سے نکل کرمنافع کمانے لگیں گے۔ ا س طرح کے مشکل فیصلے کرنے کے بار بار مواقع نہیں ملتے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جون 2013ء میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے نوازشریف نے اپنی حکومت کی ترجیحات میں نجکامی عمل کو جاری رکھنے کافیصلہ کیا تھا اوراکتوبر 2013ء میں کیبنٹ کمیٹی آن پرائیویٹائزیشن (سی سی او پی) نے پبلک سیکٹر کے69 اداروں کو شارٹ لسٹ کیا تھا۔

تاکہ آنے والے دنوں میں ان کی نجکاری عمل میں لائی جاسکے اور ان میں سے40 ادارے ترجیحی بنیاد پر نجکاری کے لئے منظورکئے گئے تھے اوران چالیس اداروں میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز پی آئی اے بن گئی تھی۔ جس کی ری اسٹرکچرنگ کا فیصلہ بھی کیا گیا جبکہ پاکستان اسٹیل مل بھی نمایاں نام تھا اور 26 فیصد حکومت پاکستان کے ایکویٹی کنٹرول کواسٹرٹیجک پارٹنرکے حوالے کرنے اور مینجمنٹ کنٹرول بھی دینے کی باتیں کی گئیں۔

نجکاری کمیشن کے سربراہ محمد زبیر جن کی زیادہ تر توجہ نجکاری کے عمل کوعوام کے سامنے بیان کرنے کی بجائے پانامہ لیکس پر اپوزیشن کے واویلے کا جواب دینے پرمرکوز رہی۔ وہ خود دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ موجودہ حکومت ہی ہے جس نے پی آئی اے‘ اسٹیل مل اورپاور سیکٹرمیں ٹرانزیکشن اسٹرکچرکو مکمل کیا حالانکہ پی آئی اے اوراسٹیل مل تو 1997ء سے نجکاری کے ایجنڈے میں شامل تھیں۔

لیکن دوسری کوئی حکومت اس جانب نمایاں پیش رفت نہ کرسکی اوربالاخرنواز حکومت نے ہی بیڑہ اٹھایا ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ ان دونوں اداروں یعنی اسٹیل مل اور پی آئی اے میں اربوں روپے کے پیکج کی منظوری اوربارباراداروں کے سربراہوں کی تبدیلی کے باوجود ان ا داروں کومنافع بخش بتانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اس لئے اب ان دونوں اداروں کی نجکاری ہی مسئلے کا واحد حل ہے اوراس کے لئے ضروری ہوم ورک اوراقدامات کئے جارہے ہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابراج گروپ ان اداروں کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

یہ وہی ابراج گروپ ہے جس نے 2008ء میں کے ای ایس سی کا انتظام سنبھالا اور 2012ء میں پہلی مرتبہ 17 سال بعدکے الیکٹرک منافع کمانے کا اعلان کیاجبکہ 31 مارچ 2016ء تک مالی سال کے ابتدائی 9 مہینے میں 40 فیصد منافع بڑھاتے ہوئے 22 ارب 79 کروڑروپے کا منافع کمانے کا اعلان کیا گیا۔ نجکاری کمیشن نے اس دوران اسٹیل مل کے تمام اثاثے اور واجبات سمیت اسے حکومت سندھ کوسونپنے کی پیشکش بھی کی لیکن حکومت سندھ نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا جس کی ایک بڑی وجہ یہ زیربحث رہی کہ صوبائی حکومت ا تنے بڑے حجم والے ادارے کوچلانے کا تجربہ اور مہارت نہیں ہے تب ابراج جیسے گروپ آگے آئے۔

ابراج گروپ اس وقت دنیا بھر میں 10 ارب ڈالر سے زیادہ کی ایکویٹی کا انتظام سنبھال رہا ہے اوراس کے پاس مقامی رسائی اور عالمی پلیٹ فارم کے کمی نیشن کی وجہ سے عالمی معیارکے مطابق کام کرنے اور بہترین نتائج اخذ کرنے کی بھرپور صلاحیت مہارت اورتجربہ موجودہے۔ ابراج کوانویسٹمنٹ اورپورٹ فولیومینجمنٹ اسکلز کے حوالے سے بے مثال فوقیت حاصل ہے جو اسے دیگراداروں اور کمپنیوں سے منفرد ا ور ممتازبناتی ہے اوراس کا ایشیاء ،افریقہ، لاطینی امریکہ، مڈل ایسٹ اورترکی کے حوالے سے شاندار ٹریک ریکارڈ بھی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ نجکاری کمیشن آنے والے دنوں میں کیا فیصلے کرتاہے اور خسارے میں جانے والے اداروں کو جن کی حیثیت سفید ہاتھی کی بن چکی ہے ان کومنافع بخش حالت میں لانے کے لئے ان کی نجکاری کاعمل کس طرح اورکب آگے بڑھاتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Steel Mill is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 December 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.