قومی اثاثے

وفاقی حکومت نے مو ٹر وے اور ایئر پو رٹس کے بعد سرکاری ٹی وی یعنی پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارتوں کو بھی گروی رکھنے کافیصلہ کر لیا ہے۔ ملک بھر میں قائم ریڈیو سٹیشن کی عمارتوں کا تخمینہ 720 ملین ڈالر لگا یا گیا ہے۔اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے ایک اہم اجلاس میں اسلام آباد لاہور موٹر وے کا ایک حصہ گروی رکھ کرسکوک بانڈ جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے

منگل 22 نومبر 2016

Qoumi Asase
وفاقی حکومت نے مو ٹر وے اور ایئر پو رٹس کے بعد سرکاری ٹی وی یعنی پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارتوں کو بھی گروی رکھنے کافیصلہ کر لیا ہے۔ ملک بھر میں قائم ریڈیو سٹیشن کی عمارتوں کا تخمینہ 720 ملین ڈالر لگا یا گیا ہے۔اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے ایک اہم اجلاس میں اسلام آباد لاہور موٹر وے کا ایک حصہ گروی رکھ کرسکوک بانڈ جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت اسلام آباد مو ٹر وے کا ایک حصہ رکھ کر 75 کروڑ سے لیکر ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈ جاری کرے گی۔ موٹر وے یا دوسرے ادارے گروی میں رکھ کر ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے 69 سالہ تا ریخ میں سیاسی پارٹیوں کے حکمران ملک میں لوٹ اور کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ 2008 میں پاکستان کا فی کس بیرونی قرضہ 37 ہزار روپے، سال2012 میں 81 ہزار روپے ، سال 2013 میں فی کس قرضہ 91 ہزار روپے سال 2015 میں ایک لاکھ 5 ہزار روپے اور سال 2016 میں پاکستان کا قرضہ ایک لاکھ35 ہزار روپے تک پہنچ گیا۔

(جاری ہے)

اور اس وقت پاکستان کا کْل قرضہ 75 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ جبکہ اسکے برعکس پاکستانیوں کے سماجی اقتصادی اشاروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پاکستان کے سماجی اقتصادیاشارے بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ ، سری لنکا ،اوربھارت سے کئی درجے نیچے ہیں۔بات صرف قرض ملکی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ملکی قومی اداروں کو بھی کوڑی کے دام بکوایا گیا۔

اگر ہم نجکاری کی ما ضی پر نظر ڈالیں تو سال 1991 سے سال 2013 تک 167 ادروں کی نج کاری تقریباً 467 ارب روپے میں کی گئی ہے۔ ان میں نواز شریف کے دو ادوار میں 76 اداروں کی نجکاری 14.6 ارب روپے میں، پیپلز پا رٹی کے دو ادوار میں 26 اداروں کی نجکاری 33 ارب روپے میں جبکہ پر ویز مشرف کے 10 سالہ دور میں 62 اداروں کی نج کاری 419 ارب روپے میں کی گئی ہے۔ما ہر اقتصادیات روٴف احمد کا کہنا ہے کہ تینوں ادوار اور بالخصوص نواز شریف کے دور میں یہ ادارے 25چند کم قیمت پر بیچے گئے۔

جہاں تک نج کاری کے پیسوں کا تعلق ہے تو طے شدہ قانون اور ضابطوں کے مطابق ان رقم میں 90 فی صد رقم خا رجہ قرضوں کی ادائیگی پر اور 10 فی صد عام لوگوں کی فلا ح و بہبود پر خر چ ہونی چاہئے مگر نہ تو یہ رقم خارجہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کی گئی اور نہ عام لوگوں کی سماجی اقتصادی اشاروں میں کوئی تبدیلی آئی بلکہ انکے بر عکس خارجہ قرضے بڑھ گئے اور عام لوگ بھوک افلاس کی وجہ سے خود کشیوں پر مجبو ر ہیں۔

ابھی ایشیاء اور عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں 70 فی صد یعنی 13کروڑ لوگ غْربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں ۔ اس وقت ۱۲۳ ممالک کی لسٹ میرے پاس ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جو پاکستان کے ساتھ یا پاکستان کے بعد آزاد ہوئے ہیں مگر اب ممالک میں ناگْقفتہ حالت ہماری ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاست دا ن اور اسٹبلشمنٹ کب تک غریب اور پسے ہوئے طبقات کو لوٹتے رہیں گے؟ انکو کب 19 کروڑ عوام پر تر س آئے گی؟اْنکی شاہ خرچیاں کب ختم ہوگی؟۔

ایک عام پاکستانی کس طرح آسا نی سے روزگار، سر چھپانے کی جگہ اور دو وقت کی روٹی میسر ہوگی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ایک عام پاکستان کے ذہین میں گھوم رہے ہیں اور وہ حکمرانوں نے اس قسم کے سوالات کا تقا ضا کر رہے ہیں ۔ پاکستان کو اللہ تعا لی نے مختلف قسم کے وسائل دئے ہیں مگر ہمارے حکمران ان وسائل کو ایکسپلور کرنے کے بجائے اور پاکستانیوں کے سماجی اقتصادی زندگی میں تبدیلی لانے کے بجائے انکو لوٹ رہے ہیں۔

اور پاکستان کے آثاثے بیچ بیچ کر اور پو ری دنیا سے ریکارڈ قرضہ لینے کے با وجود یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دن دوگنی رات چو گنی ترقی کر رہی ہے۔ پاکستان کے لو گ غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں بے روز گار پڑھے لکھے نوجوان ایم اے ایم ایس سی ، انجینیرنگ، میڈیکل کی ڈگریاں ہاتھ میں پکڑ کے نوکری کے لئے در بدر کی ٹو کریں کھا رہے ہیں اور ان بے چاروں کو چند ہزار کی نو کری نہیں ملتی۔

ماں باپ اپنے بچوں کو پیٹ کی دوزخ کی آگ بجھانے کے لئے اپنے جگر گو شوں کو بیچ رہے ہوتے ہیں۔ حکومت کوئی بھی ذمہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔ تعلیم سے لیکر نو کری، طبی سہولیات، بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ بھوک اور افلاس اس قوم کا مقدر ہے۔ خدارہ اس ملک اور قوم پر رحم کرو۔ اگر ہم اس قوم کو مزید دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کریں گے تو انکے بڑے خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qoumi Asase is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 November 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.