رمضان کی آمدآمد اور مہنگائی میں اضافہ

سال بھر کہیں نظرنہ آنے والی غیر موثر پرائس کنٹرول کمیٹیاں اچانک فعال ہوجاتی ہیں۔۔۔۔ ایک دہائی میں پاکستان کی نصف آبادی بھوک اور فاقہ کشی کاشکار ہوچکی ہے

پیر 1 جون 2015

Ramzan Ki Amaad Amaad Or Mehngai Main Izafa
رحمت خان وردگ:
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمدآمد ہے اور وفاتی وزیر خزانہ نے خودیہ اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔خط غربت سے نیچے زندگی دراصل فاقہ کشی ہوتی ہے اور پہلی بار اس بات کااعتراف حکومتی سطح پر کیا گیا ہے۔یہ انتہائی سنگین صورتحال ہے کیونکہ تقریبا ایک دہائی قبل تک پاکستان میں بھوک شاید نہ ہونے کے برابر تھی مگر ایک دہائی میں پاکستان کی نصف آبادی کی بھوک وفاقہ کشی کاشکار ہوگئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں کی نااہلی کرپشن میرٹ کا قتل بڑے آبی ذخائر تعمیر نہ کرنا اور ملک کے قدرتی وسائل سے استفادہ نہ کرناہے۔

اس وقت یہ صورتحال ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھوک وفاقہ کشی میں زبردست اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور میرے خیال میں حکومتی اعدادوشمار حقائق کے منافی ہیں بلکہ اصل صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

(جاری ہے)

انتخابات میں دعوؤں کے برعکس اقدامات کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔لیکن حکومتی لوگوں سے جب وجہ دریافت کی جائے یہ کہہ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام مسائل گزشتہ حکومت نے دیئے ہیں اور ہم بہتری کے لئے پر عزم ہیں۔

ان سے پوچھا جائے کہ آئی ایم ایف سے قرض کیا گزشتہ حکومت نے لیا؟ کیا2013ء میں آئی ایم ایف سے گیس وبجلی کی قیمتیں دوگنی کرنیکا وعدہ گزشتہ حکومت نے کیا تھا؟ بہر حال یہ بات طے ہے کہ جب تک خود مختاری کی جانب انقلابی اقدامات نہیں کئے جاتے اور بیرونی قرضوں سے نجات نہیں مل جاتی اس وقت تک پاکستان میں مہنگائی کا سیلاب آتارہے گا کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے منافع سے غرض ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ انہیں بروقت منافع ملتا رہے گا وہ حکومت کو بجلی گیس ودیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے معاہدہ کر لیتے ہیں اور اس پر علمدرآمد سے بات کی قطعی پرداہ نہ تو حکومت کرتی ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف وورلڈبینک کہ اس سے عوام کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ توورلڈبینک اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر گیس وبجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی کا خاتمہ ہے۔
نوازلیگ رہنماؤں نے مئی 2013ء کی انتخابی مہم میں دعوٰی کیا تھا کہ ہم اقتدار میں آکر کشکول توڑدیں گے مگر انہوں نے اقتدار میں آکر پہلے ہفتے ہی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر آئی ایم ایف سے خفیہ مذکرات کئے اورحکومت میں آنے کے صرف 2۔

1 ماہ میں ہی قوم کویہ خوشخبری سنائی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو نیا قرضہ دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔نئے قرض کے اجزاء کے لئے آئی ایم ایف نے جوشرائط رکھی تھیں وہ آخر کیا تھیں؟ پاکستان کو نیا قرضہ گیس وبجلی پر سبسڈی ختم کر کے مرحلہ وار قیمتیں دوگنی کرنے کے تحریر ی معاہدے کے بعد ہی دیا گیا۔یعنی انتخابی مہم میں بلند ریلیف دینے کا سامان کردیا اور اب اس معاہدے پر مرحلہ وار علمدرآمدبھی کیا جارہا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ایشیاء میں بجلی کی سب سے زیادہ قیمتیں ہونے کے باوجود عوام کو بجلی بھی نہیں مل پارہی۔تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کی وجہ سے حکومت اس رفتار سے بجلی وگیس کی قیمتیں نہیں بڑھاسکی جس کا عالمی مالیاتی اداروں سے وعدہ کیا ہوا تھا۔اب حکومت مرحلہ وار بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے جارہی ہے۔ہرسیاسی جماعت انتخابات میں عوام کا ہمدردہونے اور انہیں ریلیف دینے کی دعویدار ہوتی ہے مگر جب اقتدار میں آتی ہے توان کی ترجیحات صرف اور صرف جاگیردار سرمایہ دار اور صنعتکاروں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔

بجٹ2014ء میں لگژری گاڑیوں پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی اور یہ فیصلہ حیران کن تھا۔اب غریبوں کو چاہئے کہ چھوٹی گاڑیوں میں لٹک کریا چھتوں پر سفر کرنے کے بجائے لگژری گاڑیوں خریدیں ۔لیکن کیسے خریدیں ؟یہ حکومت بنانے سے قاصر ہے۔حکومت کا پرائس کنٹرول بالکل نہیں ہے اور ملک بھر میں جو جس قیمت میں چاہے اشیاء فروخت کرنے میں مکمل آزادی رکھتا ہے۔
پرائس کنٹرول دراصل بلدیاتی اداروں کا کام ہے اور گزشتہ 7سال سے بلدیاتی انتخابات نہ کراکر حکومت نے عوام کی مشکلات میں زبردست اضافہ کیا ہے اور جنرل مشرف کے دور حکومت کے بعد ملک بھر میں کوئی قابل قدرترقیاتی کام نہیں ہوا۔

دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کے ذریعے منظم اور موثر طریقے سے پرائس کنٹرول کر نیوالا نہیں ہے اور رمضان المبارک میں بھی غیر موثر پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہوجاتی ہیں لیکن رمضان المبارک سے قبل ہی منافع کور دودھ ،دہی ،پھلوں ،سبزیوں ،گوشت غرض ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کرچکے ہوتے ہیں اور پھر رمضان المبارک میں دکھاوے کی حد تک بڑھی ہوئی قیمتوں پراشیاء کی فروخت کی چیکنگ کی جاتی ہے اور عوام کو یہ دلاسہ دیا جاتا ہے کہ آپ بے فکر رہیں آپ کو سستی اشیاء کی ترسیل یقینی بنانے کے لئے پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنا کام کر رہی ہیں۔

زیادہ تر بازاروں ،مارکٹیوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹی کے چھاپے سے نصف گھنٹہ قبل ہی تمام دکانداروں اور ریڑھی والوں کو اس بات کی اطلاع مل جاتی ہے کہ کچھ ہی دیر میں چھاپہ لگنے والا ہے اس لئے وہ مجسٹریٹ کے آنے سے قبل ہی سرکاری قیمتوں پر اشیاء کی فروخت اس وقت تک شروع کردیتے ہیں جب تک خطرہ ختم نہیں ہوجاتا اور پھر دوبارہ من مانی قیمتوں پر فروخت شروع ہوجاتی ہے بہر حال پرائس کنٹرول کا پاکستان میں کوئی نظام نہیں اور جب تک دکانداروں کو ڈر نہیں ہوگا اس وقت تک قیمتوں کے ساتھ ساتھ معیاردمقدار درست ہونے کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ۔

پرائس کنٹرول کو یقینی بنانے کے لئے وفاق وتمام صوبائی حکومتوں کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور رمضان المبارک میں بھی صرف دکھاوے کی حد تک چھاپے مارے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر عوام من مانی قیمتوں پر اشیاء خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔غریب کا توسال بھراب روزہ ہی ہوتا ہے اور اس کو ایک وقت کا کھانا مل جائے تو غنیمت سمجھی جاتی ہے۔
وفاقی حکومت نے جس رمضان پیکچ کااعلان کیا ہے وہ ناکافی ہے اور اس میں تمام ممکن حد تک اضافہ کیا جائے۔

صوبائی حکومتوں کو بھی چاہئے کہ رمضان پیکچ کا اعلان کر کے تمام بنیادی ضرورت کی اشیاء کم ازکم نصف قیمت پر عوام کو فراہم کرے اور صرف یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے فروخت کے بجائے پر تحصیل میں 4۔3 مقامات پر سرکاری کیمپ لگا کر سستی اشیاء عوام کو وافر فراہم کی جائیں۔اکثردوردراز علاقوں میں یوٹیلٹی اسٹور کا وجود ہی نہیں حالانکہ دوردراز علاقوں میں ہی زیادہ پسماندگی وغربت ہے اور وہیں پر سستی اشیاء کی فراہمی کا اعلان کر کے چین کی نیند ہوجاتی ہے ۔

گزشتہ چند سالوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ رمضان پیکچ کے تحت سیاسی جماعتوں نے ٹرک بھر بھر کر اپنی پارٹی کے لوگوں کو سستا آٹا دیا جس پر حکومتی خزانے سے اربوں روپے سبسڈی دی گئی لیکن سیاسی لوگوں نے یہ سستا آٹا اپنے ذاتی جیبیں بھریں ۔اس بات سے ہر عام شہری اچھی طرح واقف ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لوگ صرف اور صرف ذاتی جیبیں بھرنے کے لئے رمضان پیکچ کی اشیاء کا کوٹہ لیتے ہیں جو عوام تک نہیں پہنچ پاتیں اور مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہیں۔

اس بار یوٹیلٹی اسٹور کے علاوہ رمضان پیکچ کی اشیاء کی براہ راست عوام تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے موثر حکمت عملی ضروری ہے اور سیاسی کار کنوں کو ٹرک بھر بھر کر اشیاء کی فراہمی یقینی بنائے اور جس حد تک ممکن ہوسکے عوام کو رمضان المبارک بابرکت مہینے میں ریلیف ملنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Ramzan Ki Amaad Amaad Or Mehngai Main Izafa is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 June 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.