ٹیکس ایمنسٹی بھی چوری کا رجحان نہ روک سکی

ٹیکس کی وصولی ہر سال مشکل ہوتی جار ہی ہے۔ ٹیکس چوری میں اضافہ جاری ہے جبکہ ٹیکس نیٹ کے حجم میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس سال حکومت کوشش اور ٹیکس ایمنسٹی کے اعلان کے باوجود کا میابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔بنکوں سے رقم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس( ٹیکس کی کٹوتی) کا عمل بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکا

منگل 12 جولائی 2016

Tax Amnesty Bhi Chori Ka Rohjaan na Rook Saki
میجرمحمد اعجاز احمد:
ٹیکس کی وصولی ہر سال مشکل ہوتی جار ہی ہے۔ ٹیکس چوری میں اضافہ جاری ہے جبکہ ٹیکس نیٹ کے حجم میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس سال حکومت کوشش اور ٹیکس ایمنسٹی کے اعلان کے باوجود کا میابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔بنکوں سے رقم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس( ٹیکس کی کٹوتی) کا عمل بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکا۔ بنکوں کے ذریعہ ودہولڈنگ ٹیکس کے نتیجے میں ناصرف کاروباری طبقہ پریشان ہے بلکہ کئی شعبوں میں کاروبار بند ہو کر رہ گیا ہے۔

یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بنکوں کی طرف سے ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی پریشانی کی وجہ نہیں ہے بلکہ ٹیکس کی شرح کا زیادہ ہونا پریشانی کا باعث ہے۔ بار بار کی ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کے اجرا کی بجائے اگر حکومت کی طرف سے ٹیکس کی موجود شرح میں کمی کر دی جائے تو ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

جب بھی ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز زیر بحث آتی ہے تو بیورہ کریسی آڑے آجاتی ہے ۔

یہی نہیں بلکہ سیاست دانوں اور بہت سے طبقات کی طرف سے سرمایہ داروں سے نفرت بھی سامنے آجاتی ہے۔ ہمیں اس نفرت کے جذبات پر قابو پانا ہوگا۔
ہمارے مذہب میں زکوة کی جو شرح مقرر ہے وہ بادی انظرمیں کم نظر آتی ہے۔مگر اس اڑھائی فیصد یکساں شرح کو نہ تو کم سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو جھٹلا یا جا سکتا ہے۔ اندازہ کریں اگر ملک کی تقریباََ بیس فیصد آبادی صاحب نصاب ہو اور وہ زکواة کی ادائیگی کریں تو بات کہاں تک پہنچ سکتی ہے ۔

زکوةکی کم مگر یکساں شرح کی روشنی میں اگر ذاتی آمدنی والے اور تنخواہ دار طبقہ کی چار لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر پانچ فیصد کی یکساں شرح کے حساب سے (یعنی ہر لاکھ پر پانچ ہزار روپیہ) ٹیکس کی وصولی کی جائے اور ملک کی آبادی کا چوتھا یا پانچواں حصہ اگر ٹیکس کی ادائیگی شروع کر دے تو حکومت ہر سال وافر پیسہ اکٹھا کر سکتی ہے۔ شاید یہ سکیم کم آبادی والے ملک کے لیے موزوں نہ ہو لیکن ہمارے ملک کی آبادی بہت زیاد ہ ہے۔


ٹیکس کی شرح کم کرنا نا صرف حکومت کی بلکہ معاشی ضرورت بھی ہے۔ ملک کے کاروباری اور صنعتی اداروں کے سالانہ منافع پر ٹیکس کی موجود شرح کم کر کے زیادہ سے زیادہ دس فیصد تک لانے سے ٹیکس کی یہ کم شر ح نہ صرف کاروباری طبقہ کے لیے قابل قبول ہو گئی بلکہ ان کی پہنچ میں بھی ہوگی۔ کسی کو بھی اپنی آمدنی چھپانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ٹیکس کی ادارئیگی آسان ہو جاے گی جب سب ٹیکس دیں گے تو حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔

اور حکومت ملک کے اندر بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے کے قابل ہوگئی۔ جب ان ڈائریکٹ ٹیکس میں کمی آئے گی تو ضرورت کی اشیاء سستی ہو جائیں گی۔
سرمائے کی بیرون ملک غیر قانونی ترسیل بھی کمی واقع ہو گی۔ آف شور کمپنیز میں سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جب پیسہ ملک کے اند رہے گا تو کاربار بھی پھلے پھولے گا ملک میں خوشحالی آئے گی ۔ معیاری اشیاء کا بنانا ہی کسی ملک کی صنعتی ترقی کا راز ہے۔ لہٰذا غربت کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے اس پہلو پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tax Amnesty Bhi Chori Ka Rohjaan na Rook Saki is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 July 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.