ٹیکس بڑھانے کی تجاویز

دنیا کی کوئی بھی مہذب قوم یا اچھی حکومت اس وقت تک کامیابی یا ترقی کی سیڑھی پر قدم نہیں رکھ سکتی جب تک اس قوم یا معاشرہ میں احساس ذمہ داری نہ ہو یا ان کو اپنے حق و فرض کی انجام دہی کا ادراک نہ ہو

منگل 15 مارچ 2016

Tax Barhane Ki Tajaveez
شیخ منظر عالم:
دنیا کی کوئی بھی مہذب قوم یا اچھی حکومت اس وقت تک کامیابی یا ترقی کی سیڑھی پر قدم نہیں رکھ سکتی جب تک اس قوم یا معاشرہ میں احساس ذمہ داری نہ ہو یا ان کو اپنے حق و فرض کی انجام دہی کا ادراک نہ ہو اور نہ ہی کوئی قوم اس وقت تک معاشی و اقتصادی قوت بن سکتی ہے جب تک اس قوم کے ادارے مستحکم نہ ہوں اور عوام اپنے اپنے حصے کا فرض یعنی ٹیکس ادا نہ کرتے ہوں۔

اکثر و بیشتر سنجیدہ و مخلص قومیں و معاشرے اپنے ابتدائی دس پندرہ سالوں ہی میں اپنی منزل مقصود کا تعین کرکے آگے کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کئی ملک جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ہمارے ملک کے ایک شہر کراچی سے بھی چھوٹے ہیں مگر اپنی معاشی قوت اور زرمبادلہ کے ذخائر کے لحاظ سے ہم سے کئی زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں حتیٰ کہ ہم ہی سے پینتالیس سال پہلے الگ ہونے والا بنگلہ دیش ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بن چکا ہے اور اسکی برآمدات بھی پاکستان سے زیادہ ہے اور اسکے زرمبادلہ کے ذخائر اٹھائیس ارب ڈالرز کی سطح سے تجاوز کرگئے ہیں جبکہ نائجیریا کے زرمبادلہ کے ذخائر 27.8ارب ڈالرز ، ویت نام کے 39.6ارب ڈالرز اور لبنان کے 49.6 ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں جبکہ ہم قرضوں کی قسطوں کی وصولیابی سے حاصل شدہ زرمبادلہ کی وجہ سے مسرت و کامیابی کے شادیانے بجارہے ہیں۔

(جاری ہے)


اتفاق سے یکم مارچ کو ذرائع ابلاغ کیمطابق ایف بی آر کے چیئرمین نثار محمد خان نے ملک میں ٹیکس ادا کرنیوالوں کی تعداد دس لاکھ بتائی ہے اور ظاہر ہے اس میں اکثریت تنخواہ دار طبقے کی ہوگی۔ان ہی تجربات کی روشنی میں ، میں نے اپنے نوائے وقت کے کالم بعنوان "رضاکارانہ ٹیکس اسکیم یا چوری کی ترغیب "مورخہ دس جنوری 2016میں اس اسکیم پر تبصرہ کیا تھا کہ یہ سب وقت کا ضیاں ہے اور ناکام اسکیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے کچھ حاصل وصول نہ ہوگا کیونکہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"اس لئے جب تک ہم اپنی نیتیں ٹھیک نہیں کریں گے اس وقت تک ہمیں کسی بھی میدان میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوگی اور یہی نیتوں کا فتور ہی ہے کہ آج تک حکومت کے کوئی بھی ٹیکس اہداف حاصل نہ ہوسکے ہیں کیونکہ ہم کسی بھی صحیح کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔

یہی حال ہمارا ٹیکس وصولی کے متعلق بھی ہے کہ آج تک ہم ٹیکسوں کی وصولی میں سنجیدہ نہیں ہوئے حالانکہ مہذب معاشروں اور قوموں میں ٹیکس ادا کرنے والا فرد اپنے آپ کو ایک بڑا معزز اور قابل احترام شہری سمجھتا ہے کیونکہ مہذب حکومتیں اپنے شہریوں کی عزت نفس کا احساس کرتے ہوئے افراد کے بجائے اداروں کو مضبوط بناتی ہیں جبکہ ہم نے دوسرے ادارے تو کیا تمام اداروں کی ماں یعنی پارلیمنٹ کو بھی وہ اہمیت نہ دی اور اس میں بھی ہمارے وزیر اعظم اور وزراء صرف ان موقعوں پر جلوہ افروز ہوتے ہیں جب انہیں اپنی حکمرانی کھسکتی ہوئی نظر آتی ہے۔

اسی لئے جب تک ہم اداروں کو مضبوط نہیں بنائینگے ہم قوم میں شعور بیدار نہیں کر سکتے کیونکہ ٹیکس ادائیگی کیلئے سب سے پہلی شرط ٹیکس ادا کرنیوالوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ اسکے ساتھ کوئی جبر یاظلم نہیں ہورہا بلکہ یہ اسکی اپنی بہتری اور ملک وقوم کی فلاح کیلئے کیا جارہا ہے اور اسے ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں ایک بہتر زندگی گذارنے کا موقع ملے گا۔


اس طرح ٹیکس ادا کرنیوالا ٹیکس کو اپنے آپ پر بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ فخر سمجھ کر ادا کریگا۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم دوہرامعیار ٹیکس اور متضاد پالیسیاں نہیں بنائیں گے۔تو میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی ہم بغیر کسی عالمی ادارے کی مدد کے اپنا بجٹ اگلے تین سالوں میں تین گنا بڑھا سکتے ہیں۔جس کیلئے ہمیں سب سے پہلے ایک حد یعنی کم از کم تین لاکھ روپے سے اوپر ماہانہ آمدنی کرنے والوں پر ان کی آمدنی کے مطابق ٹیکس وصولی کا نظام بنانا چاہیے۔

اس کیلئے دستاویزی معیشت کیلئے دلائل گذشتہ اڑسٹھ سالوں سے اور موجودہ ہماری سرمہ والی سرکار یعنی وزیر خزانہ اسحاق ڈار خصوصی طور پر بڑے ذور وشور سے دیئے جارہے ہیں تو کاش وہ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی کمر بستہ ہوجاتے کیونکہ دستاویزی معیشت کو عملی صورت دینے کیلئے ہمیں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے آج کے جدیددور کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی بدولت کسی بھی شہری کے کریڈٹ کارڈ سے خریداری ، اسکے ملکی و غیر ملکی سفر کے اخراجات اور ہوٹلوں کے بلزوغیرہ چند منٹوں میں حاصل کئے جاسکتے ہیں۔


اسکے ساتھ ہی پچیس ہزار سے زیادہ کی کوئی ٹرانزکشن صرف کراس چیک اور شناختی کارڈ نمبرکی صورت میں ہونی چاہیے۔ صرف اس ایک اقدام کو اگر عملی طور پر نافذ کردیں تو ہمارا سالانہ بجٹ میں ٹیکس کی وصولیابی کا تخمینہ کم از کم تین گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔ اسکے علاوہ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان کے بذات خود بیان کے مطابق اگر ہم غیر فعال اداروں کی کرپشن اور بدعنوانی کو روک لیں تو ہم ملک میں ڈھائی سو اسپتال بناسکتے ہیں اور یہی بات میں بھی اپنے گذشتہ چھ سالوں سے اپنے معاشی تجزیوں میں کررہاہوں اور خود خرم دستگیر خان حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد بھی فرما تے رہے ہیں مگر عمل ندارد۔

اسی طرح ہم نے ابھی تک اپنے پیداواری شعبے کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ہے اسلئے اگر ہم 2016کو صرف پیداوار بڑھانے کا سال قرار دیکر اسکی طرف عملی طور پر انجینئرنگ ، آٹو انجینئرنگ ، کیمیکل، پٹرولیم مصنوعات، پلاسٹک اور الیکٹرونک شعبوں میں ٹیکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھیں تو اس سے ناصرف ہم اپنا کروڑوں ڈالرز زرمبادلہ سالانہ بچا سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی دے سکتے ہیں جس سے ملک میں امن وامان کے مسائل پر قابو کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ٹیکسوں کی مد میں بھی ہمیں ایک بھاری رقم حاصل ہوسکتی ہے۔

اسکے علاوہ جائیداد کی خرید فروخت میں بھی بڑ ے پیمانے پر ٹیکس چوری کی جاتی اس لئے ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی جائیداد کیلئے خریدار اور فروخت کنندہ پر لازمی ہو کہ وہ اس جائیداد کی جس بھی رقم کا معاہدہ کریں وہ جائیداد نمبر اسکی تفصیل اور جس رقم کا معاہدہ ہو وہ تمام Public Web Site اور دیگر ذریعوں سے لازمی اطلاع دینا ضروری ہو اور 20دن تک ٹائم دیا جائے کہ کوئی بھی فرد اسکو 15 یا20 فیصد ذیادہ دیکر خرید سکتا ہے تو اس سے سالانہ اربوں روپے اضافی رقم کی وصولی ہو سکتی ہے اسکے ساتھ مرکزی بینک کو حقیقی معنوں میں ایک خومختار ادارہ بنایا جانا چاہیے جس پر حکومت کا اختیار نہ ہو کہ وہ حکومتی دباؤ میں آکر روزانہ کی بنیاد پر اربوں کے نوٹ چھاپ رہا ہو اور بینک کے بجائے ایک پرنٹنگ مشین کا کردار ادا کرے کیونکہ اس وقت بھی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا مرکزی بینک سابقہ دور حکومت کے مقابلے میں روزانہ کی بنیاد پر کئی گنا ذیادہ نوٹ چھاپ رہا ہے جس سے افراط زر بڑھ رہی ہے جبکہ ٹیکسوں کی وصولیابی کی شرح میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہااس لئے ٹیکسوں کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے اور پاکستان کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tax Barhane Ki Tajaveez is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 March 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.