تعلیم دشمن پالیسیاں

یہ بات نئی نہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن کی آمدن کا انحصار اور گزر بسر کھیتی باڑی سے ہوتا ہے دیہی علاقوں کے لوگ جب فصل اگا رہے ہوں تب بھی سارا گھرانہ مصروف اور جب فصل کاشت یا کٹائی ہو رہی ہو تب بھی مصروف ہو جاتا ہے۔ جس میں بچے بڑے سب ہی ہاتھ بٹاتے ہیں تو بہت ہی سارا عمل مکمل ہوتا ہے

ہفتہ 19 نومبر 2016

Taleem Dushman Policies
یہ بات نئی نہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن کی آمدن کا انحصار اور گزر بسر کھیتی باڑی سے ہوتا ہے دیہی علاقوں کے لوگ جب فصل اگا رہے ہوں تب بھی سارا گھرانہ مصروف اور جب فصل کاشت یا کٹائی ہو رہی ہو تب بھی مصروف ہو جاتا ہے۔ جس میں بچے بڑے سب ہی ہاتھ بٹاتے ہیں تو بہت ہی سارا عمل مکمل ہوتا ہے۔

ایسے میں کئی دہائیوں سے دیہی علاقوں کے اساتذہ ان دنوں میں بچوں کو سکول سے آدھی چھٹی یا پوری چھٹی دے کر ان کے مسائل غربت اور ضروریات کو سمجھتے ہوئے نرمی سے کام لیا کرتے تھے مگر ہمارے تعلیم دشمن حکمران جن کی بظاہر تو پالیسیاں تعلیمی فروغ پر مبنی ہیں لیکن درحقیقت لوگوں کو تعلیم سے متنفر کرنے اور سکول چھڑوانے کی کوشش پر مرتب کی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

بچوں کو سو فیصد حاضری دینا سکول میں پڑھنے کیلئے جبراً لازمی ہے۔ اساتذہ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ چیکنگ پر چیکنگ ایجوکیشن کو ایک تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ انگریزی کا مقولہ ہے Look Busy Do Nothitngجس کا مطلب ہے کہ
صرف مصروف نظر آوٴ لیکن کرو کچھ بھی نہیں۔ اساتذہ کو ذہنی سکون ہی میسر نہیں وہ کیا پڑھائیں اور کیسے پڑھائیں۔ جب ان کا ذہن کسی حاضری چیک کرنے والے کی طرف ہی بھٹکتا رہے گا؟ ہمارے عقل کے اندھے حکمران یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ پڑھنا اور شعور حاصل کرنا ذہنی سکون میسر ہونے پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

تصوری حاضریاں لینے سے درس و تدریس کس قدر متاثر ہوتی ہے؟ آئے روز طرح طرح کے نئے طریقہ امتحانات سکول ڈراپ ایشو کتنی بڑھ گئی ہے۔ شاید یہی ہمارے حکمرانوں کا درپردہ مقصد ہے جس کو حا صل کرنے میں وہ سو فیصد کامیاب ہو رہے ہیں۔ اساتذہ کو اتنا پریشرائز کیا جا رہا ہے کہ وہ جبری ریٹائرمنٹ لے کر اپنی جان بچائیں۔ جب اساتذہ کو ہی ذہنی طور پر ہراساں اور پریشان رکھا جائے گا تو دیہی علاقوں کے بچے کیا خاک تعلیم حاصل کر پائیں گے۔

خواتین ٹیچرز کو گھروں میں جا کر بچوں کو سکول لے کر آنے پر افسران بالا مجبور کرتے ہیں جبکہ یہ ان کے پیشہ ورانہ فرائض کا ہرگز ہرگز حصہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی بھی طور پر خواتین اساتذہ کی عزت نفس کے لئے سودمند ثابت ہو گا اور نہ ہی یہ خواتین ٹیچرز کے لئے تحفظ کا باعث ہوسکتا ہے کہ وہ گھر گھر جائیں اور لوگوں کو منت سماجت کر کے بچوں کو سکول میں حاضر کریں۔

یہ معلم کی توہین ہونے کے ساتھ جذبہ علم جس میں پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے کہ منافی بھی ہے جس سے عام دیہاتی ان پڑھ لوگوں کے اندر یہ تاثر پایا جانے لگا ہے کہ اگر وہ اپنے بچے سکول نہ بھیجیں تو اساتذہ کو تنخواہ نہیں ملے گی اور یہ کہ محض اپنی تنخواہ بچانے کے لئے ہمارے بچوں کو زبردستی سکول حاضر کرنے پر زور دیا جا رہا ہے ۔ ہر ملک کا بجٹ اور آئین ریاست کے افراد/ بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اور ریاست و حکمرانوں پر فرض بھی ہے کہ مفت تعلیم کا بندوبست کرے۔

اگر پاکستان کے بجٹ کا صرف 4 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے تو کیا یہ قوم پر احسان ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملکی بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم پر خرچ ہو نا چاہیے بجٹ میں کوٹہ بڑھانے کی بجائے رہے سہے حصے کو بھی آئے روز حکومت وقت محدود کرتی جا رہی ہے۔ سکولوں کی نجکاری کا عمل قابل مذمت ہونے کے ساتھ ملک کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کی بیرونی سازش پر مشتمل ہے۔

ایسا لگتا ہے1857ء والے برصغیر میں مسلمانوں کے حالات سے سبق نہ سیکھتے ہوئے ایک بار پھر تعلیم و شعور سے پاکستان کو محروم کرنے کی طرف سفر تیزی سے جاری ہے۔ جب دیہی علاقوں کے عوام اپنے بچوں کو اپنے زرعی معمولات میں شامل نہ کر پائیں گے تو ان کا روزگار جو پہلے ہی موسمی اثرات کے زیر اثر رہتا ہے ختم ہو جائے گا کیونکہ کسانوں کے بچے کپاس کی چنائی سے لے کر ہر قسمی آبیاری کھیت وغیرہ میں ان کے معاون ہوتے ہیں ایسے میں کون اپنے بچوں کو صرف سکول میں بھیج کر اطمینان سے بیٹھ جائے؟ طریقہ یہ رہا ہے ہمیشہ کہ اساتذہ نے ان بچوں کے علاقائی رسم و رواج اور طریقہ ہائے رہن سہن اور ان کی معاشی ضروریات کو سمجھ کر ہمیشہ ان بچوں کو جائز تعاون بھی دیا اور ان بچوں کے لئے تعلیم و حاضری سکول کو بھی آسان اور سہل بنایا جو کہ اب خواب و خیال ہو گیا ہے کہ اب تو اساتذہ کو ہر صورت ہر بچے کو سکول حاضر کروانا ہے۔

چاہے جوبھی ہو۔ جس سے عام دیہاتی والدین اور بچوں میں تعلیم سے بیزاری پیدا ہو رہی ہے۔ اگر اس بابت سروے کیا جائے تو عام لوگ تعلیم کو لوگوں میں بیروزگاری کی وجہ قرار دیتے بھی نظر آتے ہیں جیسا کہ ذاتی طور پر مجھے بھی تجربہ ہواکہ لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ تعلیم دلوا کر کیا کرنا ہے الٹا جو پڑھ لکھ کر بیکار پھر رہے ہیں حکمران کی عوام دشمن پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جن لوگوں کو روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ تعلیم کا شعور تو اس وقت ہی پکڑ سکتے ہیں جب ان کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہوں۔ اینٹوں کے بھنٹوں پر کام کرنے والے بچوں پر پابندی لگانے پر لوگوں نے بددعائیں بھی کیں کیونکہ ان گھروں میں چولہے گرم کرنے والے ہاتھ مدد سے روک دئیے گئے۔ پاکستان کے حکمران ہمیشہ ہر مسئلے کو پتے اور شاخیں کاٹ کر حل کرنے کی نام نہاد کوشش میں سرگرم رہتے ہیں جبکہ مسئلہ جوں کا توں زیر زمین جڑیں بڑھاتا رہتا ہے۔

پاکستان سے جہالت ختم ہو یہ ہر دردمند دل رکھنے والے پاکستانی کی طرف میری بھی خواہش ہے لیکن اساتذہ کو آئے روز نت نئے طریقہ کار تدریس اور سو فیصد حاضری طلبا کے ڈرون گرا کر آپ کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اساتذہ جیسے معتبر پیشے سے وابستہ ملازمین کو روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے طریقہ کار اور ہدایات تدریس کی آڑ میں ان کے معتبر پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ملک میں تعلیمی مساوات پیدا کرنے میں ہماری حکومتیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں لگتا ہے اس ناکامی کا بدلہ لینے کے لئے اب ہمارے حکمران چاہتے ہیں کہ غریب کی رسائی تعلیم تک نہ ہونے پائے کیونکہ ہمارے عوام کو تعلیم اور شعور آ گیا تو یہ روزگار مانگیں گے اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہونگے۔ نتیجةً ان کو ووٹ کون دیگا؟ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر اقتدارکے حریص شخص کی نیند اڑ جاتی ہے اور اس کی تعلیم دشمن پالیسیاں پھلنے پھولنے لگتی ہیں۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنا عوام کا حق ہے۔ ہمارا آئین ہمیں ان کے دوامی وجود کے لئے بلاتفریق اس کا حق دیتا ہے کہ ان اداروں پر بری نظر ڈالنے والے عناصر کو ختم کر دیں۔ا گر ایسا نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب تعلیم صرف صاحب ثروت اور صاحب اقتدار افراد کے گھروں کی لونڈی ہو جائے گی۔ بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان سے قبل برصغیر میں ہندوستان کے صرف برہمن کھتری ہی تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتے تھے اور ذات پات کا نظام نسل در نسل قائم ہوتا چلا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Taleem Dushman Policies is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 November 2016 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.