تعلیمی کرپشن

پاکستان اور چین کے مابین تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون پر ایم او یو سائن ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کچھ یوں ہے۔پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کرپشن پر برطانیہ میں بھی تشویش میں مبتلا ہے یاد رہے کہ برطانیہ پاکستان کے ایجوکیشن سیکٹر کو فنڈز دینے والا بڑاملک ہے

منگل 19 اپریل 2016

Taleemi Corruption
مسرت قیوم:
پاکستان اور چین کے مابین تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون پر ایم او یو سائن ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کچھ یوں ہے۔پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کرپشن پر برطانیہ میں بھی تشویش میں مبتلا ہے یاد رہے کہ برطانیہ پاکستان کے ایجوکیشن سیکٹر کو فنڈز دینے والا بڑاملک ہے لیکن کرپشن کی داستان دیکھ کر وہ خود پریشان ہے سندھ اور پنجاب کے ایجوکیشن سیکٹر میں کرپشن کا چرچا برطانوی اخبارات میں بھی ہے۔

70 کروڑ پاوٴنڈز سالانہ امداد کرپشن کی نذر ہونے کا خدشہ ہے۔ برطانوی حکام نے سر پکڑ لئے ہیں ، رینجرز جب کسی کو کرپشن پہ پکڑتی ہے تو یہ شور مچاتے ہیں لیکن اب تو برطانیہ کے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کے مطابق ، پنجاب میں ہائیر ایجوکیشن کے شعبے میں ساڑھے 3 کروڑ پاوٴنڈ کی کرپشن ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

برطانیہ نے پنجاب میں تعلیم کی بہتری کیلئے 38 کروڑ پاوٴنڈ دیئے۔

سندھ میں 5 ہزار اسکول اور 40 ہزار اساتذہ صرف کاغذوں میں موجود ہیں۔برطانوی حکام کے مطابق فنڈز لینے والے پرائیویٹ اسکول اساتذہ کو کم از کم تنخواہ بھی نہیں دیتے کچھ پرائیویٹ اسکولز اساتذہ کو صرف 3 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں۔برطانیہ کی امداد کے ذریعے لاکھوں بچے اسکول جارہے ہیں اب ان کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے پوری دنیا میں تعلیم پر حکومتوں اور نجی اداروں کی طرف سے اربوں روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں تا کہ آئندہ نسلوں کو سنوارا جاسکے لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں تعلیمی شعبے میں بھی کرپشن اپنے عروج پر ہے۔

اداروں کو تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے جو فنڈز دیئے جاتے ہیں ان میں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن سامنے آرہی ہے۔ سندھ، بلوچستان میں تو تعلیم کا بیڑہ ہی غرق ہوچکا ہے جہاں پر ہزاروں سکولوں میں اساتذہ گرانڈ پر تو نہیں ہیں تاہم وہ گھر بیٹھ کر یا کسی اور ادارے میں کام کرکے بطور ٹیچر بھی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ وہاں پر سکولوں کی عمارتوں پر لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا یہ حال ہے کہ یہاں پر تعلیم ایک انتہائی منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ناقص تعلیم کے بدلے لوگوں سے ہزاروں، لاکھوں روپے وصول کئے جارہے ہیں اور جس وقت والدین کو یہ علم ہوتا ہے کہ ان کے بچے کو مناسب تعلیم نہیں ملی اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔ پنجاب میں پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا ہے جس کا بنیادی مقصد پرائیویٹ سکولوں کو پارٹنر بناکر انہیں ماہانہ مخصوص رقم فراہم کرنا ہے تاکہ بچوں کو مفت تعلیم دی جاسکے تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ جو سکول اچھے طریقے سے چل رہے ہیں وہ اپنی رجسٹریشن پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن کے ساتھ نہیں کراتے جو ناقص معیار کے ہیں یا ان کے پاس بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے وہ فانڈیشن کے ممبر بن جاتے ہیں۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سکول مالکان ایک یا دو ٹیچرز کے ساتھ معاملات چلالیتے ہیں جبکہ ملنے والی رقم خود ہڑپ کرجاتے ہیں۔ سب سے بڑی کمی چیک اینڈ بیلنس کی ہے جس وقت تک چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔”جب تک ایک سندھی زندہ ہے کا لا باغ ڈیم نہیں بنے گا “
سنہ 1980 اور 1990 کے عشرے میں کالا باغ ڈیم منصوبے کو بھی ایک قومی منصوبے کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن اس سے باقی ملک کو ملنے والے کسی ایک ’قومی‘ فائدے کو بھی اجاگر نہیں کیا جا سکا تھا۔

اب بھی سندھ کارڈ جیب میں لیکر پھرنے والی ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نے کہا ہے کہ جب تک ایک بھی سندھی زندہ ہے تب تک کالا باغ ڈیم نہیں بنے گا۔اس ڈیم کی مخالفت صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا نے نوشہرہ میں سیلاب کے خطرے، بڑے پیمانے پر لوگوں کے بے گھر ہونے اور سندھ کے ریگستان میں تبدیل ہو جانے کے خدشے کے پیش نظر کی تھی۔پاکستان میں ڈیمز کیلئے سائٹس کی کمی نہیں۔

انکی تعمیر سے بجلی کی کمی پوری ہو سکتی ہے اور پانی بھی دخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر سب ڈیم مل کر کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ بارشوں‘ سیلابوں اور بھارت کی طرف سے چھوڑے جانیوالے پانی کا ایک تہائی کالا باغ ڈیم میں سما سکتا ہے جس سے 36 سو میگاواٹ بجلی تو پیدا ہو گی ہی پانی بھی ضرورت کے مطابق استعمال ہو سکتا ہے۔ محض ایک ڈیم کی تعمیر سے ہم سیلاب سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جو ہر سال انسانوں کو ڈبوتا اور فصلیں برباد کرتا ہے ساتھ ہی بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ سے بھی نجات حاصل ہو گی۔

ہمارا دشمن کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیلئے ہر سال باقاعدہ 6 ارب روپے مختص کرتا ہے۔ وقت اس امر کا شدید متقاضی ہے کہ پانی اور بجلی بحران کو حل کرنے کے لیے جامع پروگرامز تشکیل دیے جائیں جس میں کالا باغ ڈیم کو اولین ترجیح حاصل ہو۔ خوش قسمتی سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں قدرت بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ وہ اس طرح کہ ڈیم کی تعمیر کی جگہ کے تین اطراف میں مضبوط اور بلند و بالا دیواریں قدرتی طور پر موجود ہیں‘ صرف ایک دیوار تعمیر کرنے سے ڈیم 6.1 سے 7.1 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کے لیے تیار ہو گا۔

یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم کالا باغ ڈیم بنانے میں کامیاب ہو گئے تو ہماری لاکھوں ایکڑ بنجر زمین نہ صرف قابل کاشت بنائی جا سکتی ہیں بلکہ اس طرح ہم خوراک کی درآمد میں خرچ ہونے والا سالانہ اربوں روپیہ بھی بچا سکتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے ذریعے نہ صرف سستی بجلی پیدا ہو گی بلکہ تیل کی درآمد میں بھی کمی آئیگی جو ملکی معیشت کو چاٹ رہیے لوڈشیڈنگ کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا اور اس کے ثمرات یہیں ختم نہیں ہونگے بلکہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے سے تالا بند صنعتی یونٹ، کارخانے اور ملیں بھی چالو ہو جائینگی اور ساتھ ہی بیروزگاری و مہنگائی کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Taleemi Corruption is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 April 2016 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.