افغان خواتین کے مسائل

افغانستان سے بھا رت کے ڈیفنس اتاسی ایس کے نرائن کو نکال دیا گیا۔ دنیا کے ملکوں میں کسی متنازعہ مسئلے پر سفیروں کو بلا کر تنبیہہ کرنے کا تو سب ہی جانتے ہیں مگر افغانستان سے ڈیفنس اتاشی کو کیوں نکالا گیا یہ کہانی ذرا سی مختلف ہے

ہفتہ 23 جولائی 2016

Afghan Khawateen K Masail
عائشہ مسعو د ملک:
افغانستان سے بھا رت کے ڈیفنس اتاسی ایس کے نرائن کو نکال دیا گیا۔ دنیا کے ملکوں میں کسی متنازعہ مسئلے پر سفیروں کو بلا کر تنبیہہ کرنے کا تو سب ہی جانتے ہیں مگر افغانستان سے ڈیفنس اتاشی کو کیوں نکالا گیا یہ کہانی ذرا سی مختلف ہے اور ابھی تک اس کہانی پر دنیا بھر کے میڈیا نے واویلا مچانا بھی شروع نہیں کیا۔ بھارت کی انٹیلی جنس ”را“ اداروں میں گھس کر معلومات حاصل کرنے اور پھر کئی طرح کی منفی سرگرمیوں میں ملوث رہتی ہے مگر بھارت کے سینئر افسران بھی اس انداز میں منہ کالا کر رہے ہیں جیسا کہ اس خبر سے ظاہر ہوا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوجی کشمیر میں کیا کرتے ہونگے ؟ افغانستان میں روس کو نکالنے کے مرحلے میں ایک طویل جنگ کے بعد افغانستان کی جو صورتحال ہے وہ اس دنیا کے لئے ایک المیہ ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ پہاڑوں پر طالبان اور توپیں یا کلاشنکوف تو دکھائی جاتی ہیں مگر وہاں کی ایک بڑی آبادی عورتوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا کہ وہ کن مسائل کا شکار ہیں۔ جبکہ افغانستان میں صورت حال یہ ہے کہ مردوں کی ایک بڑی تعداد جنگ کی نذر ہو جانے کے بعد خواتین کی اور خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ جو شادی کی عمروں تک پہنچ چکی ہیں یا کچھ بڑھاپے کی دہلیز پر منتظر بیٹھی ہیں کہ باعزت زندگی کا آغاز کر سکیں۔

ایسے میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کیا گل کھلا رہی ہے اس کا اندازہ ایک افغان لڑکی کی طرف سے دئیے گئے ان ثبوتوں سے کیا جا سکتا ہے جس کے بعد بھارت کے ڈیفنس اتاشی ایس کے نرائن کو افغانستان سے نکالا گیا۔ دنیا بھر کی ایجنسیاں اور پھر بھارت کی ”را“ کا طریقہ کار یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی اچھے اور بڑے مقصد کا آغاز کرتے ہیں جس پر کسی کو اختلاف بھی نہیں ہوتا اور بہت سارے لوگ استفادہ کرنے کے لئے ان کے پھیلائے گئے نیٹ ورک یا جال کا حصہ بھی آسانی سے بننے کوتیار ہو جاتے ہیں۔

اس مقصد کے لئے ”تعلیم اور صحت“ کا نام استعمال کرنا آسان ترین طریقہ ہے کیونکہ ایشیائی ممالک کے لوگ ان مسائل کا شکار رہتے ہی ہیں۔ بھارت کے فوجی افسران افغانستان کے علاوہ کشمیر میں بھی عرصہ دراز سے اس قسم کی حرکات میں ملوث ہیں۔ دنیا کے سامنے جب پاکستان کے دو قومی نظریہ کی بات کی جاتی ہے تو اس نظریہ کو بیک ورڈ قرار دینے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔

مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ کہیں نہ کہیں اس نظریے کی اہمیت تھی تو ایک الگ ملک وجود میں آیا تھا اور پھر نہ تو افغانستان کے مسلمانوں میں یہ رویے برداشت کئے جا سکیں گے اور نہ ہی کشمیر کی عورتوں پر کئے گئے ان مظالم سے نظریں چرائی جا سکتی ہیں جن میں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں ہوتیں اور انہیں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پچھلے دنوں قندیل کا قتل سامنے آیا تو اس کی مذمت کی گئی اور آنے والے دنوں میں کوئی نہ کوئی این جی او اس واقعہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی ایسی فلم تیار کرے گی جس میں پاکستانی سوسائٹی کا چہرہ دکھایا جائے گا۔

مگر کیا کوئی این جی او ایسی ہے کہ جو افغانستان میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے اس ظلم کی داستان پر بھی فلم بنائے یا کشمیری مسلمان عورتوں پر کئے گئے مظالم کی داستان پر فلم بنائے۔ خاص طور پر جنسی تشدد پر آواز بلند کرے یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک تو افغانستان میں مسلسل جنگ مسلط ہے اور دوسرا ان کے حکمران افغانی عوام کی نمائندگی کرنے کی بجائے ایسے غلام ہیں جو دوسروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں دراصل عورتوں کے حقوق کی بات کسی خاص ایجنڈے یا مقاصد کے لئے نہیں ہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور رضا کارانہ طور پر محسوس کی جانی چاہیے۔

جنگ زدہ علاقوں میں جو بھی افواج عارضی تعینات ہوتی ہیں ان کا کام وہاں کے حالات میں لوگوں کی مدد کرنا اور عورتوں اور بچوں کو تحفظ دینا تو ہو سکتا ہے مگر بھارت کے ایس کے نرائن کی طرح لٹیرا بن جانا قابل مذمت بات ہے۔ فرانس کی ایک جرنلسٹJean Sevillia نے اپنی کتابTerrorism Intellectuel میں فرانس کی کئی اہم شخصیات کے بارے میں جنسی تشدد یا زیادتی پر تفصیل سے لکھا تھا اس طرح امریکہ کی FBI کے سابق آفیسرGunderson Ted جو کہ سینئر سپیشل تحقیقاتی ایجنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر فلاسفر اور کئی کتابوں کا مصنف تھا اس نے اپنے لیکچرز کے ذریعے بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ CIA والے بچوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا کرتے تھے اور اس طرح کے کئی انٹرنیشنل کرائمز میں ملوث تھے جیسا کہ بھارتی اتاشی تھا۔

Gunderson Ted کے سپیشل لیکچر peadophile CIA Satanisne and امریکہ بھر میں مشہور ہیں۔ اس طرح ایک اور کتاب The Pawns in The Gameبھی ایک امریکن رائٹر کی ہے جس میں اس قسم کے مسائل پر لکھا گیا ہے۔ افغانستان میں ہونے والے واقعہ کے جواب میں بھارت کے ڈیفنس اتاشی بریگیڈئر ایس کے نرائن کو بھارت واپس بھیج دیا گیا۔ بھارت کے افسران تعلیم کے لئے سکالر شپ دینے کے نام پر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو بلیک میل کر رہے تھے۔

ظاہر ہے کہ ایک پسماندہ معاشرے میں حالات کی تنگدستی میں پسے ہوئے نوجوان تعلیم کے لئے سکالر شپ کے حصول کو اپنی خوش قسمتی ہی تصور کر سکتے ہیں مگر ”را“ کے ایجنٹوں کے گھناوٴنے کردار نے ان نوجوانوں کو ایک اور طرح کی نفسیاتی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ میں شائع ہونے والی کتابوں سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ FBI ‘ CIA یا ”را“ کے ایجنٹ نہ صرف کسی ملک میں ملک دشمن عناصر کی پرورش کرتے ہیں اور حادثات اور سانحات رونما کروانے کیلئے کام کرواتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ یہ افسران جنسی تشدد اور ہوس پرستی میں مبتلا ہو کر غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

مشہور بدنام زمانہ گوانتے مابے میں امریکن فوجیوں نے مسلمان عورتوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا تھا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ طویل جنگوں اور آزادی کی جدوجہد میں حالات کی سنگینی کے ساتھ ساتھ اس طرح کی اخلاقی پستی کا شکار ہونے والی خواتین اور بچیوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی۔
آج دنیا بھر میں انسانی حقوق یا عورتوں کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام کرکر رہی ہیں مگر دراصل افغانستان یا پھر کشمیر یا پھر ایسے ہی کسی اور ملک کی خواتین کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہیں کہ ان کے نفسیاتی مسائل کس درجہ پر جا سکتے ہیں اور ایک ایسا معاشرہ جس میں امن و امان کا نام و نشان اور تحفظ کا نام و نشان تک نہیں وہ معاشرہ عورتوں اور لڑکیوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے۔

ہمارے ہاں تو کسی میں یہ جرات بھی نہیں کہ امریکہ کہ رائٹرز کی طرح کھل کھلا کر کتاب لکھ ڈالے مگر اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی بریگیڈئر کی جتنی ہو سکے مذمت کی جا سکے۔ تاکہ دنیا کی حفاظت کے نام پر لٹیرے تشکیل نہ دئیے جا سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afghan Khawateen K Masail is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 July 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.