افغانستان کی خانہ جنگی

کیا حکومت اس پر قابو پا لے گی ؟۔۔۔۔ ۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی نوید بھی ایک عرصہ سے سنائی دے رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ افغان طالبان اور حکومت دونوں ہی مذاکرات کی طرف بڑھتے نظر آئے تھے لیکن یک دم پانسہ پلٹ گئے

جمعرات 3 مارچ 2016

Afghanistan Ki KhanaJangi
افغانستان کی صورت حال تا حال تشویش ناک ہے۔ بظاہر امریکی انخلا کے اعلان اور افغانستان میں مخلوط حکومت بننے سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب معاملات کو سلجھا لیا جائے گا۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی نوید بھی ایک عرصہ سے سنائی دے رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ افغان طالبان اور حکومت دونوں ہی مذاکرات کی طرف بڑھتے نظر آئے تھے لیکن یک دم پانسہ پلٹ گے۔

افغانستان میں داعش کی آمد اور افغان طالبان کے ساتھ داعش کی جھڑپوں نے صورت حال کو مزید کشیدہ کر دیا۔ یہ وہی صورت حال تھی جس میں اسلام کے نام پر ایسے دھڑے آپس میں لڑ رہے تھے جو سامراج کے خلاف مزاحمت کے دعویٰ دار ہیں۔دوسرے الفاظ میں بظاہر ان جھڑپوں کا فائدہ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کو ہو الیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو ہوا ہے۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی فوج کے انخلا کے حوالے سے بھی تجزیے غلط ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ نیٹو کی واپسی کے بعد افغانستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن اب یہ بات بھی غلط ثابت ہو رہی ہے۔ نیٹو کے بعد افغان سیکورٹی فورسسز بے بس نظر آتی ہیں جبکہ مختلف دھڑے سر اٹھا چکے ہیں۔ اس صورت حال پرکہا جا رہا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر بدترین خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہاہے۔

افغانستان میں ہونے والی ان جھڑپوں میں جتنا نقصان ہوا ہے اس کے بعد اب عالمی ادارے اس سوچ کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں کہ ملکی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افغانستان میں عالمی اداروں کا عمل دخل ضروری ہے۔ اس رائے کو ایک بڑا مکتبہ فکر یکسررد کر ریا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد سے بھی انکارا نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی ادارے نے 2015 کو افغان جنگ کا بدترین سال قرار دے دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2015 میں افغانستان میں 11ہزار افراد ہلاک وزخمی ہوئے۔ مسلح جتھوں کی آزادانہ جنگ میں بچے اور خواتین بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ خلیجی ٹی وی الجزیرہ اور برطانوی وفرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ نے 2015 کو افغانستان میں عام شہریوں کے لیے ہلاکت خیز سال قرار دیا ۔اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس 3545 شہری ہلاک اور 7457 شہری زخمی ہوئے۔

یاد رہے کہ 2014 کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ تھی۔ دیگر الفاظ میں فوجی انخلاکے معاملات حکومت اور سکیورٹی فورسسز کے ہاتھ سے نکلتے چلے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ 2014 کے آخر میں برطانوی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے تیزی سے پیش قدمی کی اور 24 اضلاع پر قبضہ کر لیا۔ طالبان اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔

طالبان کے ساتھ داعش اور سکیورٹی فورسسز کی جھڑپوں کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں نصف تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کی ہلاکتوں میں37 فیصد جبکہ زخمی بچون اور خواتین کی تعداد میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔ غیر ملکی افواج کی کارروائیوں میں 103 شہری جان سے گے۔ عالمی ادارے گزشتہ سال زیادہ ترہلاکتوں کی وجہ طالبان کو قرار دے رہے ہیں۔

ان ہلاکتوں کو بڑی کامیابی بتایا جا رہا ہے ۔ وہ اسے دشمن کی ہلاکتیں قرار دیتے ہیں۔ ان کی جانب سے خواتین ، بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تددید کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ 2009 میں افغان جنگ سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹس مرتب کرنا شروع کی تھیں اس کے بعد 2009 سے اب تک جنگ کے دوران 59000 شہری مارے یا زخمی ہوئے۔ اس صورت حال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ک افغانستان کے حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں۔ افغان حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود تاحال صورت حال پرقابو پانے میں ناکام نظر آر ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan Ki KhanaJangi is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.