امریکہ بھارت دوستی اور ہماری احتجاجی سیاست

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارت کا دورہ کیا ہے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرنا وہ بھارت جا کر بھی نہیں بھولے۔مگر ان کی زبان سے یہ سچ نکل ہی گیا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نے ملک سے دشت گردی کے خلاف بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں

منگل 6 ستمبر 2016

America India Dosti
عتیق انور راجا:
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارت کا دورہ کیا ہے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرنا وہ بھارت جا کر بھی نہیں بھولے۔مگر ان کی زبان سے یہ سچ نکل ہی گیا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نے ملک سے دشت گردی کے خلاف بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔وہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

بھارت امریکہ کیلئے ایک بڑی مارکیٹ ہے اور بھارت میں بیٹھ کر امریکہ چین کے خلاف سازشیں کرنا چاہے گا۔دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔اب یہ دونوں ایک دوسرے کی دفاعی تنصیبات سے استفادہ کر سکیں گے۔ اس دفاعی تعاون کا بنیادی ہدف چین ہے۔دنیا میں اس وقت چین ہی ایک ایسا ملک ہے جو امریکی پالیسوں کے خلاف کھلم کھلا بات کرتا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی دفاعی اور معاشی طاقت سے امریکہ اور بھارت دنوں ہی خوفزدہ ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بھارت امریکہ سے جو بھی معاہدے کر رہا ہے ان سے پاکستان ضرور متاثر ہو گا۔امریکہ نیوکلئیر سپلائزرگروپ(NSG)کی رکنیت بھارت کو دلوانے کا حامی ہے۔ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس معاملے میں کھل کر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین اس سلسلے میں اگر اپنا موثر کردار ادا نہ کرتا تو بھارت کو اب تک اس گروپ کی رکنیت مل گئی ہوتی۔

پاکستا ن سے اس سلسلے میں بھی امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔پاکستان کی سب کوششوں اور جنگ میں ہر طرح کے نقصانات کے باوجود امریکہ بھارت کی زبان بول رہا ہے۔جان کیری کی پریس کانفرنس سے صاف ہوجاتا ہے کہ اس خطے میں مستقبل میں امریکہ کیا پالیسی بنا رہا ہے۔اب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے دیکھنا ہوگا۔ملک میں فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت پر ایک عرصے سے زور دیا جارہا ہے۔

اب میاں صاحب کوچاہیے کہ اس منصب پر کسی محب وطن بندے کو تعینات کریں جو دنیا میں پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے۔امریکہ نے بہت پہلے سے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس علاقے میں بھارت کو اپنا اتحادی بنائے گا۔ نئی پالیسی میں بھارت کو ہر سطح پر ترجیع دی جارہی ہے۔اس کا آغاز صدر امریکہ بل کلنٹن کے دورہ بھارت سے شروع ہوا تھا۔جب امریکی صدر نے پاکستان میں صرف چار گھنٹے قیام کیا مگر بھارت میں چار دن مصروف رہے۔

نائن الیون کے بعد دوستی کا یہ سفر کچھ دیر کے لئے موخر کردیا گیا۔کیونکہ امریکہ کو افغانستان میں جنگ جیتنے کے لیے پاکستان کی ضرورت تھی ۔ امریکہ نے جو مانگا ہمارے بہادر کمانڈر نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کے ان کے حکم کو مانا۔سالہا سال سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سپلائی بھی پاکستانی سر زمین سے ہی ہو رہی ہے ۔پاکستان میں دشت گردی کا جو طوفان آیا ہے اس کی بڑی وجہ امریکہ سے اتحاد کی پالیسی رہی ہے۔

امریکی اتحادی بننے سے پہلے پاکستان میں خود کش حملوں کا کوئی تصور نہ تھا۔یہ خودکش حملے اتحادی بننے کے بعد شروع ہوئے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان حملوں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ اسی سیاہ دور میں مہمان سری لنکن کرکٹ پلیئرز پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔جس کی وجہ سے پاکستان کے کھیل کے میدان ویراں کر دیے گئے۔جو ابھی تک بحال نہیں ہو سکے ہیں ۔

دشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا پورا پورا ساتھ دینے کے باوجود امریکہ پاکستان سے کبھی خوش نہیں ہوا ہے۔بلکہ اس نے ہمیشہ ڈو مور کا راگ الاپا ہے۔ہماری حکومتیں امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔مگر نہ امریکہ ہم سے خوش ہوا اور نہ ہی دشت گردی کم ہو رہی تھی۔ نواذ شریف حکومت نے عسکری قیادت کو مکمل اختیار دے کر ملک سے دشت گردی کو اکھاڑ پھینکا ہے۔

جس سے بھارت اور امریکہ دونوں ہی پریشان ہیں۔بھارت نے پاکستان کے اندر تخریب کے جو منصوبے بنائے ہوئے تھے ان کی تکمیل اب کسی طور بھی نہیں ہوسکتی ہے۔ اب امریکہ کے ہر حکم کے آگے سر جھکانے کی پالیسی بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ملک میں توانائی کے بہت سے منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔امن و امان کی صورتحال دن بدن بہتر ہو رہی ہے۔مگراب ملک کے اندر سیاسی ہلچل نے بہت سے محب وطن لوگوں سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ایسے وقت میں جب کشمیر کی تحریک آزادی فیصلہ کن مرحلے میں پہنچی ہوئی ہے۔

ہمارے سیاسی راہنما کیوں ملک میں افراتفری کا ماحول بنارہے ہیں ۔ ہمارے میڈیا کواس وقت کشمیر ی بھائیوں کی حمایت میں پروگرام کرنے تھے۔اب وہ سارا میڈیا احتجاجی جلسوں کی کوریج میں مصروف ہوگیا ہے۔ہم جانے انجانے کشمیر کاذکو کیوں نقصان پہنچارہے ہیں۔اس وقت کشمیری بھائی مدد کے لیے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں اور ہم نے گھر میں اپنی اناوں کی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ حل طلب مسائل کے لیے ملکی اداروں کے دروازے پر دستک دینی چاہیے۔احتجاجی سیاست سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America India Dosti is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 September 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.