امریکہ میں روایت پسندی کی جیت

ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ پارٹی کی نہایت پاپولر امیدوار ہیلری کلنٹن کو ہرا کر صدارتی الیکشن جیت لیا۔ اگر شطرنج کی بساط پر گھوڑے کی جگہ گدھا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ فیل نے اسپ کو مات دے دی۔ہیلری بطور صدارتی امیدوار امریکہ میں ہی نہیں بیرون امریکہ بھی نہایت مضبوط امیدوار تسلیم کی جا رہی تھیں۔ بطور وزیر خارجہ ان کی کامیابیاں اور متحرک شخصیت تسلیم شدہ تھی

جمعہ 11 نومبر 2016

America Main Riwayat Pasandi Ki Jeet
جی این بھٹ:
ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ پارٹی کی نہایت پاپولر امیدوار ہیلری کلنٹن کو ہرا کر صدارتی الیکشن جیت لیا۔ اگر شطرنج کی بساط پر گھوڑے کی جگہ گدھا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ فیل نے اسپ کو مات دے دی۔ہیلری بطور صدارتی امیدوار امریکہ میں ہی نہیں بیرون امریکہ بھی نہایت مضبوط امیدوار تسلیم کی جا رہی تھیں۔

بطور وزیر خارجہ ان کی کامیابیاں اور متحرک شخصیت تسلیم شدہ تھی۔ ان کے مقابلے میں ٹرمپ کو امریکہ سے باہر اتنی خاص پذیرائی حاصل نہیں تھی۔ خود امریکی ووٹر بھی بطور شخصیت ان کے بارے میں زیادہ آگہی نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے جس طرح سکینڈلز میں اور خاص طور پر خواتین کے حوالے سے منفی صورت حال پیدا کی اس سے بھی رائے عامہ خاص طورپر خواتین کا ہیلری کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر تھا۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں مسلم ممالک اور اسلام کے حوالے سے ان کی منفی آرا اور بیانات کی بدولت امریکہ میں مقیم مسلم تارکین وطن بھی ٹرمپ سے خاصے برگشتہ تھے۔ عرب تارکین وطن تو خاص طور پر متنفر تھے۔ مگر ماہرین سیاسیات کے تمام دعوے اس وقت غلط ہوتے نظر آئے جب ٹرمپ نے اپنے بارے میں منفی ریمارکس اور خیالات کے باجود ایک زبردست جارحانہ انتخابی مہم چلائی۔


ہیلری کی تمام انتخابی مہم ملکی و خارجہ معاملات اور امریکی معاشرے میں ریفارمز کے حوالے سے تھی۔ وہ ڈیموکریٹک صدر اوباما کی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور امریکی عالمی پالیسیوں کو برقرار رکھنے کی زبردست موید رہیں۔ انہوں نے کھل کر ٹرمپ کے خواتین اور اسلام دشمن رجحانات اور بیانات کو اچھالا اور عالمی سطح پر امریکہ کی طاقت اور قیادت کو برقرار رکھنے کی پالیسیوں کا بھرپور دفاع کیا۔

باوجود اس کے کہ وہ عالمی مسائل اور حالات سے بھرپور آگاہ تھیں وہ دنیا بھر کے مسائل اور دیگر ممالک سے امریکی تعلقات کا بھرپور ادراک رکھتی تھیں۔ پڑھے لکھے امریکی عوام کی بڑی تعداد ان کے خیالات سے بھی متفق تھی۔ امریکہ کی بڑی بڑی ریاستوں میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت تعلیم وترقی کی شرح زیادہ ہے وہاں ہیلری کو بھرپور ووٹ ملے اور کامیابی بھی۔

یہ وہ ووٹر تھے جو امریکی ریاست کی موجودہ پالیسیوں اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے مطمئن تھے۔ اندرون امریکہ بھی ڈیموکریٹک اصلاحی و عوامی فلاحی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے تھے۔ اسی بل بوتے پر ہلیری نے ایک مصلح کے انداز میں پرسکون انتخابی مہم چلائی۔ صدارتی مباحثوں میں بھی انہوں نے اپنے پارٹی اقدامات کے حوالے سے ٹرمپ کو زچ کئے رکھا۔

ان مباحثوں میں بھی ہیلری کامیاب رہیں مگر اس کے باوجود امریکی رائے عامہ کی اکثریت نے ٹرمپ کو اس کی جارحانہ انتخابی مہم اور انتہا پسندخیالات کی وجہ سے پسند کیا۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم میں امریکی عوام اور امریکہ کو باقی تمام معاملات پر فوقیت دی۔ ٹرمپ نے انٹرنیشنل نہیں نیشنلسٹ لیڈر کے طور پر صرف اور صرف امریکن ووٹروں کو مخاطب کیا۔

انہوں نے کھل کر امریکی معاشرے میں غیر ملکی مذہبی سیاسی و معاشی مداخلت کو رد کیا۔ وہ امریکی معاشرے کو غیر ملکی مذہبی و سیاسی اثرات سے پاک مکمل آزاد امریکی معاشرہ بنانے کے زبردست موید بنے۔ انہوں نے تارکین کو امریکی معاشرتی رویوں اخلاقیات اور قوانین اپنانے کی بات کرکے انہیں امریکی پالیسیوں کا پابند بنانے کی بات کرکے ان کروڑوں امریکیوں کے جذبات کی ترجمانی کی جوزیادہ پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ نہیں تھے۔

یہی وجہ ہے کہ انہیں خالصتاً سادہ مزاج پس منظر رکھنے والے علاقوں اور ریاستوں سے جہاں جدیدیت نے ابھی مذہبی، گھریلو اور سماجی زندگی کو تہ و بالا نہیں کیا۔ ووٹ ملے۔ عربوں اور دیگر مسلمان ممالک کے ساتھ ٹرمپ کی پالیسیوں کی عکاسی امریکی ایوان نمائندگان پہلے ہی کر چکی تھی جو سعودی عرب کو نائن الیون کے متاثرین کو ہرجانے کی ادائیگی کی ذمہ داری کا قانون بھاری اکثریت سے منظور کر چکی ہے۔

یوں اس الیکشن میں پہلی بار امریکی عوام نے لبرل پالیسیوں کی بجائے ہماری زبان میں انتہا پسند سوچ کو اپنی قیادت کے لئے منتخب کیا ہے۔ حالانکہ ٹرمپ نے بہت سے فلاحی قوانین اور عوامی منصوبوں پر بھی نظرثانی اور انہیں ختم کرنے کی بات کی ہے مگر اس کے باوجود امریکی رائے عامہ نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دے کر ٹرمپ کو کامیاب کرایا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی معاشرہ میں بھی عالمی مذہبی انتہا پسندی کی لہر سرایت کرگئی ہے۔


اہل پاکستان اگر امریکی صدارتی ادوار پر نظر ڈالیں تو وہ دیکھیں گے کہ ری پبلکن صدور کے ہمیشہ پاکستان سے اچھے تعلقات رہے جب کہ ڈیموکریٹک نے بھارت نواز ہونے کا ثبوت دیا جس کی زندہ مثال بارک اوباما ہیں جن کے دور حکومت میں آخر تک ڈومور ڈو مور کی گردان ختم نہیں ہوئی۔ بہرحال اب امریکہ تارکین وطن کے لئے شاید جنت نہ رہے خاص طور پر ان تارکین وطن کے لئے جو امریکہ میں حجاب اور جہاد کے نام پر اپنے مذہبی رجحانات کی حمایت کرتے ہیں اب وہاں شاید پہلے جیسی پذیرائی نہ ملے۔

انہیں امریکی معاشرتی رویوں اور تہذیب ثقافت کے ساتھ رہنے اور زندگی بسر کرنا ہوگی۔ اب اسلامی انتہا پسندی کے جواب میں امریکی رائے عامہ میں بھی امریکی انتہا پسندی کے رویئے فروغ پا چکے ہیں اور ٹرمپ کی شکل میں ایک امریکی انتہا پسندکی حکومت اب امریکہ اور عالمی قیادت کے لئے سامنے آ گئی ہے۔ اس سے ہمارے اسلامی ممالک کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال تو ہمارے مسلم ممالک کے حکمران ایک نیا پل بنانے کی درخواست کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America Main Riwayat Pasandi Ki Jeet is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 November 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.