امریکی امتیازی نیوکلیئر پالیسی

یہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔۔۔۔دنیا میں شدت پسندی کا ناسور نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دہشت گردوں کی تباہ کن کارروائیوں سے انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مغربی میڈیا بھر پور پروپیگنڈہ کر رہا ہے

جمعرات 21 اپریل 2016

Americi Imtiyazi Nuclear Policy
شیخ عثمان یوسف :
دنیا میں شدت پسندی کا ناسور نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دہشت گردوں کی تباہ کن کارروائیوں سے انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مغربی میڈیا بھر پور پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ ایٹمی ہتھیار اور مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا ہوا کھڑا کر کے حسب روایت پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔ امریکہ اور مغرب پہلے بھر پور کوشش کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو ایٹم بم بنانے اور بعد ازاں ایٹمی تجربات کرنے سے روکا جائے۔

جب یہ اپنی منصوبہ بندی میں ناکام ہوئے تو انہوں نے نئی حکمت عملی ترتیب دی۔ ان کا ارادہ تھا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی سر زمین قرار دیتے ہوئے اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کر لیا جائے۔ امریکہ اور اتحادی فوجوں کی جانب سے افغانستان پر حملے اور تسلط کا ایک مقصد پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کرنا بھی تھا ۔

(جاری ہے)

ا مریکہ نے افغانستان میں رہتے ہوئے پاکستان میں منظم دہشت گردی کروائی تاکہ اسے ایک غیر محفوظ اور ناکام ریاست ثابت کیا جا سکے۔


ایک طرف امریکہ پاکستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہا ہے تو دوسری جانب اس نے بھارت کو اپنا لاڈلا بچہ قراد دے کر اسے فری ہینڈ دے رکھا ہے۔اس نے پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک برتتے ہوئے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا اور بھارت کو نیوکلیئر سپلائزر گروپ تک بھی رسائی دے دی گی۔ امریکہ بھارت کو خطے میں پاکستان اور چین کے خلاف کھڑا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

امریکہ کے امتیازی رویے سے خطے میں عدم توازن بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی کڑی شرائط صرف پاکستان کے لیے ہیں جبکہ بھارت اس کی نواز شات سے مستفید ہو رہا ہے۔ایک جانب امریکہ اپنے من پسند ممالک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگاتے رہیں لیکن دوسری طرف صدر اوبامہ نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ کا ڈرامہ رچا کر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو ایک محفوظ جگہ بنانے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔

اوبامہ کو امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے محض ایک برس بعد نوبل پرائز سے نوازا گیا تو انہوں نے 2010 سے نیوکلیئر سکیورٹی کا نفرنس کا انعقاد کرانا شروع کیا۔ اس میں ایٹمی قوت کے حامل ممالک سمیت دنیا بھر کے 53 ایسے ممالک شرکت کرتے ہیں جن کے پاس کرہ ارض پر موجود جو ہری مادوں کا 98 فیصد ذخیرہ موجود ہے۔
امریکہ، یورپ اور مغربی میڈیا نے 2016 نیوکلیئر سمٹ سے قبل اور اس کے درمیان اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کیے رکھا لیکن کسی نے امریکہ کے لاڈلے اور شریر بچے بھارت کی جانب نظر دوڑانے کی زحمت گوارا نہ کی۔

حقیقت یہ ے کہ امریکہ میں قائم ایک تنظیم، این ٹی آئی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ” بھارت کے جوہری سلامتی کے اقدامات پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے مقابلے مین کمزرو ہیں۔“ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2008 میں بھارتی نیوکلیئر ادارہ بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر کا دورہ کرنے والے امریکی ماہرین نے وہاں سکیورٹی انتظامات کو انتہائی ناقص قرار دیا تھا۔

این ٹی آئی انڈیکس کے مطابق جوہری سلامتی کے اقدامات کے حوالے سے 25 ممالک کی فہرست میں بھارت 23 ویں نمبر پر ہے۔ بھارت اپنی جوہری تنصیبات کی سلامتی اور تحفظ کے میکنزم کو بہتر بنانے کی بجائے نیوکلیئر تنصیبات کو مزید وسیع کرنے میں مصروف ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت دنیا کا بڑا ملک ہے۔ اور اس کی بیشتر آبادی خط افلاس تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

ایسے حالات میں کسی قسم کا جوہری حادثہ بہت زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوگا۔ انوسٹی گیٹیٹو جرنلسٹ ایڈریان لیوی نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے مشرقی صوبے جھاڑ کھنڈ میں جوہری مادوں کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور اور قریبی رہائشی تابکاری کے مفنی اثرات کے باعث خطر ناک امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان امریکہ و یورپ پر کئی مرتبہ یہ بات واضح کر چکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے اورپاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت یقینی بنانے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔ صدر اوبامہ اگر یہ چاہتے ہیں کہ وہ صدارتی کیمپ سے رخصت ہوتے ہوئے نیوکلیئر سکیورٹی کو یقینی بنائیں تو انہیں امریکہ کی منافقانہ پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Americi Imtiyazi Nuclear Policy is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 April 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.