فلائیٹ MH-370

یوں آٹھ مارچ کو ملائیشیا کے شہر کوالالمپور سے چینی شہر بیجنگ کے لیے روانہ ہونے والی پرواز ایم ایچ 370 کی تباہی کے بارے میں 25 مارچ کو حتمی اعلان کر دیا گیا مگر اب بھی اس بدقسمت طیارے کے ملبے کی تلاش کے لیے ایک بڑا آپریشن جاری ہے

پیر 31 مارچ 2014

Flight MH 370
خالد یزدانی:
دنیا میں طیاروں کے اغوا سے لے کر تباہی اور گمشدگی تک کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس حوالے سے ”برمودا ٹرائی اینگل“ میں ہوائی اور بحری جہازوں کی گمشدگی آج بھی ایک سربستہ راز بنی ہوئی ہے۔ آج جبکہ دنیا جدید ترین الیکٹرانک سہولتوں سے استفادہ کر رہی ہے۔ سائنسدانوں کی کاوشوں سے سیٹلائٹ اور ریڈاروں کی مدد سے دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی کی بھی تلاش ممکن ہو گئی ہے۔

اسی جدید دور میں چند ہفتوں قبل ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور سے چین کے شہر بیجنگ جانے والا ملائشین ایئرلائن کا طیارہ ایم ایچ 370 آٹھ مارچ 2014ء کو مقامی وقت کے مطابق بارہ بج کر 41 منٹ پر رن وے سے فضا میں پہنچا تو اس میں 227 مسافر اور عملہ کے بارہ ارکان سوار تھے۔ پرواز کے بعد ایک بج کر 14 منٹ طیارہ کے پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول کو پیغام دیا ”آئی رائٹ، گڈ نائٹ“
اس کے بعد ریڈار پر رات دو بج کر انیس منٹ پر آخری بار اس طیارے کو دیکھا گیا۔

(جاری ہے)

اس وقت طیارہ اپنے مقررہ راستے سے ہٹ کر آبنائے ملاکا میں مغرب کی طرف جا رہا تھا۔ بعدازاں آدھے گھنٹے بعد ملائیشیا ایئرلائن نے کہا کہ اس کا طیارہ سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ریڈار سے رابطہ ٹوٹنے کے بہت دیر بعد تک طیارہ ایک سٹیلائٹ نظام کو خودکار طریقے سے سگنل بھیجتا رہا جس کا مطلب یہ بھی تھا کہ آخری معلوم مقام سے 1600 کلومیٹر دور تک کا سفر کر سکتا تھا۔

اسی حوالے سے ایک نشریاتی ادارے کو سائنسی امور کے ماہر نے بتایا تھا کہ سٹیلائٹ نظام کو اس طیارے سے رابطے کے کم از کم پانچ گھنٹے بعد تک خودکار سگنل موصول ہوئے جو صرف اسی صورت میں بھیجے جا سکتے ہیں جب طیارہ صحیح سلامت ہو اور اس کے انجن کام کر رہے ہوں۔ ابتدا میں ملائیشیا کی فضائیہ نے جزیرہ نما کے دونوں جانب سمندر میں تلاش کا عمل جاری رکھا جبکہ دوسری طرف جنوبی بحرہند میں لاپتہ طیارے کی تلاش میں چین اور جاپان بھی شامل ہو گئے تھے اور ایک ہفتہ گزرنے کے بعد ملائشین حکام نے ایم ایچ 370 کی تلاش کیلئے وسیع پیمانے پر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے پچیس ممالک سے مدد مانگی تھی جس میں ازبکستان، بھارت، بنگلہ دیش، برما، ویت نام، لاؤس پاکستان بھی شامل تھا۔

اس دوران ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق نے پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ یہ طیارہ قازقستان اور جنوبی بحر ہند کے درمیان کہیں بھی ہو سکتا ہے اور ان تمام ممالک سے ریڈار ڈیٹا حاصل کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
ایک طرف لاپتہ مسافر طیارے کا فضائی طو پر جائزہ لیا جا رہا تھا تو دوسری طرف ملائشین حکام اس طیارے کے مسافروں اور عملہ کے بارے میں تحقیقات بھی کر رہے تھے کہ کہیں یہ اغوا کی سازش نہ ہو۔

اس سلسلے میں ملائشین طیارے کے پائلٹ اور معاون پائلٹ کی معاشرتی زندگی اور نفسیاتی پہلوؤں پر بھی غور کیا جا رہا تھا۔مگر تادم تحریر ابھی تک کوئی قابل زکر بات سامنے نہ آسکی جس سے معلوم ہو سکتا کہ ایم ایچ370 جہاز کو اغوا کیا گیا یا یہ کوئی تخریبی کارروائی ہے۔
ایم ایچ 370 میں سوار مسافروں میں 153 چینی، 38 ملائشین شہریوں کے علاوہ ایران، امریکہ، کینیڈا، انڈونیشیا، آسٹریلیا، فرانس، نیوزی لینڈ، یوکرائن، روس، تائیوان اور ہالینڈ کے باشندے بھی تھے۔

لاپتہ مسافر طیارے کے لواحقین اس حوالے سے جس اضطراب کا شکار دکھائی دیئے۔ اسکا اندازہ الیکٹرانک میڈیا پر نظر آنے والی تصاویر سے بھی ہو جاتا ہے۔ اپنے پیاروں کے مل جانے کی امید پر سینکڑوں لوگ ایئرپورٹ پر دن رات موجود رہے جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا۔ اس طیارے کے ملنے کے امکانات بھی بتدریج کم سے کم تر ہوتے جا رہے تھے کہ اس دوران ایک چینی خاتون کا بیان سامنے آیا کہ طیارے میں سوار اس کے بھائی کے موبائل پر ”رنگ‘ تو جا رہی ہے مگر دوسری طرف سے فون ریسیو نہیں ہو رہا اس سے یہ امید بھی پیدا ہوئی کہ اگر ہوائی جہاز سمندر میں ڈوب گیا ہے تو پھر موبائل پر سگنل بھی نہ جاتے مگر یہ سب ”امیدیں“ تھیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت دم توڑ گئیں جب 25 مارچ کو ملائیشیا کے وزیراعظم نے باقاعدہ میڈیا کے سامنے آ کر اعلان کیا کہ دو ہفتے قبل لاپتہ ہونے والا ملائشین ایئرلائنز کا مسافر طیارہ بحرہند کے جنوبی علاقے میں گر کر تباہ ہوا اور اس حادثے کے نتیجہ میں کوئی مسافر زندہ نہیں بچ سکا۔

ان کے مطابق یہ اعلان سٹیلائٹ کے تازہ ترین ڈیٹا کے تجزیے کے بعد کیا گیا کیونکہ سٹیلائٹ سے حاصل کردہ تازہ مواد کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ طیارہ آخری مرتبہ آسٹریلوی شہر پرتھ سے مغرب میں بحرہند کے اوپر تھا۔
یوں آٹھ مارچ کو ملائیشیا کے شہر کوالالمپور سے چینی شہر بیجنگ کے لیے روانہ ہونے والی پرواز ایم ایچ 370 کی تباہی کے بارے میں 25 مارچ کو حتمی اعلان کر دیا گیا مگر اب بھی اس بدقسمت طیارے کے ملبے کی تلاش کے لیے ایک بڑا آپریشن جاری ہے اور اس طیارے میں سوار چین، ملائشین اور دیگر ملکوں کے مسافروں کے لواحقین کو اب بھی امید ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پیارے زندہ ہوں اور جب تک طیارے کے ملبے کی تلاش جاری ہے ایک موسوم سی امید اب بھی ان کے دلوں میں زندہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Flight MH 370 is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 March 2014 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.