ہندو راشٹر سینا

ہندو دہشت گردی کا نیا چہرہ۔۔۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان اس کے نشانے پر ہیں۔۔۔ داڑھی رکھنے اور توپی پر ’سینا‘ کے غنڈوں کے مسلمانوں پر حملے جاری۔۔ تنظیم کی ہندوستان بھر میں 25سے زائد شاخیں قائم ہوچکی ہیں

منگل 1 جولائی 2014

Hindu Rashtarya Sena
رابعہ عظمت :
ہندوستان پر نریندر مودی کے برسر اقتدار آتے ہی ہندو فرقہ پرستوں کے بھی حوصلے بلند ہو گئے ہیں‘ ان کا ہدف صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ ہندو فاشٹ تنظیمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہلی کے تخت پر قابض ہونے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ حالیہ لو ک سبھاالیکشن میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی نے اسکی دیرینہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے اور وہ ہندوراشٹریہ کے قیام کیلئے متحرک ہو گئے ہیں جبکہ دفعہ 370 کی منسوخی اور مسلمانوں کی اقلیت تسلیم نہ کرنے کا شوشہ یقینا ہندو توا جماعت بی جے پی کا بھگوا ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

پارلیمانی انتخابات کے دوران اور پھر بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پارٹی کی کامیابی سے شدت پسند عناصر کو تقویت مل سکتی ہے۔

(جاری ہے)

انتخابی مہم کے دوران بی بے پی پر فرقہ وارانہ جذبات بھڑ جانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ گزشتہ برس ستمبر میں بھارتی ریاست اُترپردیش کے مظفر نگر ضلع اور اسکے گردونواح میں بھی فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں سینکڑوں مسلمان ہلاک اور پچاس ہزار سے زائد بے گھر ہو گئے تھے جو ہنوزدربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

بھارت میں پہلی بار ایک غیر سیکولر اور فرقہ پرست جماعت پرسراقتدار آنے سے انتہا پسندوں کے خیمے میں جہاں خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں وہیں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور بھوا جماعتیں اور تنظیمیں مودی کی وزارت عظمٰی کو ہندو مت کے احیاء کیلئے انقلاب سمجھنے لگی ہیں اور ان کی دہشت گردی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ہندوستان میں آئے روز فاشٹ گروپس قانون کو روندنے میں مصروف ہیں تو قانون ان کی مدد کرنے میں ہندو راشٹر سینا‘ ہندودہشت گردی کا ایک نیا چہرہ ہے جس میں مسلمانو ں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔

دہشت گرد تنظیم کے غنڈے مساجد کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں اور نماز پڑھ کر باہر نکلنے والے مسلمانوں کو ہاکیوں اور بلوں سے مارتے پیٹتے ہیں جبکہ داڑھی رکھنے اور ٹوپی پہننے پر ان غنڈوں کے مسلمانوں پر حملے جاری ہیں۔آئی ٹی انجینئر محسن صادق کو قتل کرنے پر ہندو راشٹر سینا کے بانی دھننجے ڈیسائی کے خلاف اشتعال انگیزی‘ مسلمانوں پر تشدد ‘ فتنہ پروری سمیت دہشت گردی کے بیس مقامات درج ہیں۔


ہندو راشٹر سینا ایک شدت پسند تنظیم ہے‘ قبل ازیں مزکورہ تنظیم توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ کیلئے خبروں میں رہی ہے۔ 2008ء میں اس کے ممبران نے ممبئی سنٹرل میں واقع اسٹار ٹی وی کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی تھی اور عملے کو زدو کوب بھی کیا تھا۔ ان ہندو بلوائیوں کا الزام تھا کہ اسٹار ٹی وی نے گجرات کے ایک ہندو اور مسلم لڑکی لڑکے کی لو سٹوری شائع کر کے ہندو مخالف کام کیا تھا۔

اس طرح انہوں نے 2008ء میں مالیگاوٴں دھماکوں کے ملزم کرنل پروہت اور سادھوی پر گیہ ٹھا کر حمایت میں احتجاجی مظاہرے کئے اور سجنے دت کی ضمانت پر رہائی کے خلاف بھ جلوس اسی فرقہ پرست گروہ نے نکالے تھے۔ حالیہ تشدد آمیز واقعہ میں ہندواشٹر سیانے مقتول انجینئر محسن صادق پر الزام لگایا تھا کہ اس نے فیس بکل پر شیواجی اور بال ٹھاکرے کی قابل اعتراض تصاویز اپ لوڈ کر تھیں۔

پونا پولیس کی بے ایمانی یہ ہے کہ اس نے ڈیسائی پر صادق کے قتل کا مقدمہ دائر کرنے کے بجائے کئی ماہ پہلے شہر میں اشتعال انگیز پمفلٹ تقسیم کرنے کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ظاہر ہے چنددنوں میں اسکی ضمانت ہو جائے گئی اور وہ ایک بار پھر گھناوٴنی حرکتوں میں مصروف ہو جائے گا‘ تاہم فرقہ پرست لیڈروں کو تحفظ دینا متعصب پولیس کا معمول ہے اس سے پہلے بجرنگ دل‘ کرنا ٹک کی شری رام سینا‘ تامل ناڈو کی ”ہندوستانی “ جیسی کئی ہندوہشت گرد تنظیموں کے خلاف پولیس کوئی سخت کارروائی کرنے کے بجائے ٹھیک ویسی ہی ٹال مٹول کی کارروئیاں کرتی جیسی کارروائی اب ڈیسائی کیساتھ کی گئی ہے۔

پولیس کے اسی رویے کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی قوت بڑتھی ہے۔ اگر محسن صادق کے قاتل جلد بازی میں اپنی موترسائیکل چھوڑ کر بھاگے نہ ہوتے تو پولیس دیقینا یہ بہانہ بنا کر انہوں گرفتارنہ کرتی کہ قاتلوں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ پونا میں جو کچھ ہوا اُس کے پیچھے نریندر مودی کے حکومت سنبھالنے کا کافی اثر دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہندوارشٹر سینا کا خود ساختہ سر براہ دھننجے ڈیسائی اور اس کے غنڈے یہ کہتے پھررہے تھے کہ اب تو ملک میں ہندووٴں کی حکومت آگئی ہے‘ اب ہم مسلمانوں کو ایسا سبق سکھائیں گئے کہ پورے ہندوستان میں اس کی گونج سنائی دے گئی۔


ایک خبر یہ بھی ہے کہ ’ہندوراشٹر سینا‘ نے اپنے آپ کو مشہور کرنے کی غرض سے خود ہی شیواجی اور بال ٹھاکرے کی تصاویر اپ لوڈ کی تھیں کیونکہ دھننجے کا ریکارڈ ہے کہ وہ انتہائی خطرناک کارروائیاں کرتاہے۔ اس کے خلاف دنگا فساد‘ جبراََ وسولی کرنے اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی متعدد شکایات متعلقہ پولیس تھانوں میں درج ہیں۔ توہم پرستی کے خلاف مہم چلانے والے ڈاکٹر نریندرد وامولکر کے قتل میں بھی یہ ملوث ہے ۔

ڈیسائی ممبئی کا رہنے والا ہے اور پونا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے ۔ وہ کرنا ٹک کی دہشت گرد تنظیم سری رام سینا کے ساتھ بھی کام کر چکا ہے ۔ تھانے کے سینما ہالوں میں بم دھماکے کرنے والے سزا یافتہ مجرم سناتن سنستھا کے لیڈرو کرم بھاوے کی کتاب کے اجراء کی تقریب میں مہمان خصوصی تھا۔ ابھینو بھارت کی تشدد پسندانہ کارروائیوں میں ڈیسائی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔

پولیس کا بھگوا تنظیم کے بانی کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ اپنے ذاتی محافظوں کے ساتھ چلتا ہے ۔ غنڈہ گردی کرتا ہے اور بھتہ وصولی کے ذریعے اپنی تنظیم چلا رہا ہے۔ اگر بھارتی پولیس تمام تفصیلات جانتی ہے تو اسے سنگین دفعات کے تحت جیل کیوں نہیں بھیجا۔
اخبار ’ ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق مسلم آئی ٹی انجینئر محسن صادق کا اس فیس بک اور قابل اعتراض دستاویز سے کوئی تعلق نہیں۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ مرکزی حکومت کو فرقہ وارنہ تشدد کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ملزمان کو سخت سزاملے ۔ محسن کو قتل کرنے کے بعد حملہ آوروں نے اپنے ایک ساتھی کو ایس ایم ایس بھیجا جس میں لکھا گیا تھا کہ پہلی وکٹ گر گئی ہے۔ اس پیغام سے لگتاہے فرقہ پرستوں کو یقین ہو گیا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کے حکومت میں آنے سے وہ مسلمانوں کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کر سکتے ہیں۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا کایہ بھی مطالبہ ہے کہ وزیرعظم نریندر مودی کو بالکل واضح موقف اختیار کرنا چائیے ‘ جبکہ بھارتی وزیراعظم نے ابھی تک مہار اشٹر میں مسلمان نو جوان کے قتل پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ نے مسلم نوجوان کے خوفناک قتل پر کہا کہ ” فیس بک پر شیواجی کی ہتک آمیز پوسٹر یر یہ ایک فطری رد عمل تھا“۔
بظاہر تو فیس بک کی بزدلانہ حرکت نہال خان نام کے فیس بک اکاونٹ سے ہوئی جس کی وجہ سے یہ احتجاج ابتداء سے ہی تناوٴ کی صورت اختیار کر گیا تھا۔

تاہم پولیس کو یہ بات پہلے ہی معلوم ہو گئی تھی کہ جس اکاونٹ سے یہ بزدلانہ حرکت کی گئی تھی وہ دراصل ہندواکثریتی طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو جعلی مسلمان بن کر شرانگیزی کر رہا تھا۔ پولیس نے ابھی تک سرکاری طورپر اس مجرم کا نام ظاہر نہیں کیا ۔ اصل یہ سارا معاملہ اترپردیش کے بعد مہاراشٹر کوبھی فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونکنے کی سازش ہے اور ہندوشرپسندوں کی طرف سے مقامی مسلمانوں کو املاک پر حملے اور مسجدوں کی بے حرمتی جاری ہے۔

بھارتی ریاست مہاراشٹر میں گزشتہ دس برسوں سے ہندو فرقہ پرست تنظیمیں انتہائی طور پر مسلم مخالف سرگرمیوں میں مشغول ہے اور بڑی ہوشیاری سے تخریب کاری میں مبینہ طور پر مسلمانوں کو پھنساتی رہتی ہیں۔ ان میں ابھینو بھارت‘ راشٹر یہ ہندوسینا‘ تپت پاوٴن سنگھٹا‘ ہندومہاسبھا‘ ہندو جن جاگرن سمیٹی اور سناتن سنتھا قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے متعدد دہشت گرد تنظیموں کے اہم لیڈر جیلوں میں بند ہیں۔

ان سے پوچھ گچھ اور ان کے ذریعہ برآمد دستاویزات‘ لیپ ٹاپ سے یہ ثابت بھی ہو گیا ہے کہ ہندوستان بھر میں دہشت گردانہ سرگرمیاں بھی انہوں نے ہی انجام دی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں صرف عام دفعات کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں آرام کرنے کیلئے بند رکھا گیا ہے‘ مگر ان کے کارندے بے خوف ہو کر قانون کو روندتے پھر رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں سرکار کے ہاتھ پیر کانپتے ہیں۔

اس لئے ان کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ یہ کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔مسلمانوں کا انتہائی براحال ہے انہیں ہر اساں کیا جاتا ہے ‘ دکانیں بند کرائی جا رہی ہیں۔ اب تو سنتھا پرکر مسلم نوجوانوں کا قتل عام بھی ہو رہا ہے۔
مہاراشٹر میں جہاں جہاں مسلمان کم تعداد میں رہائش پذیر ہیں وہاں فاشٹ قوتوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے اور اب تو لاوٴڈ سپیکر پر فجر کی اذان بھی بند کروا دی گئی ہے مگر ریاستی سرکار نے ابھی تک ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی۔

اگر نانڈیر کے ایک مکان میں بم بناتے ہوئے اسکے پھٹ جانے سے رازفشاں ہوا تھا تو اس کی تہہ میں پولیس گئی ہوتی تو اس کے بعد واقعات رونمانہ ہوتے۔ اسی طرح سال 2008ء میں مالیگاوٴں میں بم دھماکوں کی تحقیقات میں پہلے ہندوتنظیم ملوث پائی گئی اور جب ثبوت کے ساتھ اس کے دہشت گرد پکڑے گئے تو ان سے برآمد شدہ لپ ٹاپ میں ان کے سبھی خطر ناک منصوبے تھے‘ مگر انہیں بھی نظر انداز کر دیا گیا۔


اسی طرح بجرنگ دل کا پانچ سو کارکنوں کا بم بنانے اور بم دھماکہ کرنے کی ٹریننگ دینے کا انکشاف بھی ہوا تھا۔ لیکن ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو چھپا دیا گیا۔ پولیس کو صرف مسلمان ہی قصور وار نظر آتے ہیں اور اب تک ہزاروں بے قصور مسلمانوں کو ہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا چکا ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد کو عدالت نے رہا کر دیاہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔

سرکار چاہے کانگریس کی ہو یا این سی پی کی‘شیو سینا یا بی جے پی کی مسلمان کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔اگر آج ہندو توا کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہاں ہندودشت گردی کو مسلسل نظرانداز کیاجاتا رہا۔ہندودہشت گرد تنظیموں کا اصل کام ہی ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے ایسا دہشت زدہ ماحول پیدا کرنا ہے کہ جس میں مسلمان گھٹ گھٹ کر دم توڑ جائیں۔


ہندو راشٹر سینا کے بانی دھنن جے ڈیسائی نے اگرچہ شیوسینا سے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور اسے بال ٹھاکرے کا آشیر باد بھی ملا مگر اس نے شیو سینا چھوڑ دی‘ البتہ وہ شیو سینا کیلئے ہی کام کرتا رہا ہے۔ کسی بھی الیکشن میں ہندوراشٹر سینا نے حصہ نہیں لیااور وہ شیو سینا کے لئے ہی کام کرتی رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی اس نے شیو سینا کے حق میں سو سے زیادہ ریلیاں نکالی تھیں اور شیو سینا کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔

اس کا ماننا ہے کہ امیداوار کھڑے کرنے سے ہندو ووٹ تقسیم ہونگے دھنن جے ڈیسائی کی عمر 34 سال ہے اور اس نے صرف 14 سال کی عمر میں ایک ایسی تنظیم قائم کر لی تھی جس کا مقصد ” ہندو توا“ کے نام پر مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ ہندوراشٹر یہ سینا نے خود کو ہندوٴوں کا محافظ بتا یا ہے اور آئے دن اسکے غنڈے ہنگامہ آر ائی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی دہشت گرد تنظیموں اور لیڈروں کے حق میں مظاہرے کئے اور انہی مظاہروں کی وجہ سے تنظیم سرخیوں میں رہتی ہے ۔

ہندوراشٹر سینا کے صرف پونے میں چار ہزار ممبران ہیں‘ اس کے ممبران میں بیشتر نو عمر لڑکے ہیں۔ او یہ راز بھی کھلنا باقی ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کو پیسہ کہاں سے آتا ہے ؟ اس کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ تنظیم کے ممبران خو داپنی جیب سے اخراجات کرتے ہیں مگر اب تک کی انکوائری سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس کے زیادہ ممبران غریب اور بیروزگار ہیں۔دہشت گرد جے ڈیسائی کانام اگرچہ دنیا کیلئے نیا ہے لیکن مہاراشٹر کے مسلمانوں کے لئے نیا نہیں ہے جو اس تنظیم کے غنڈوں کی جانب سے توڑ پھوڑ‘ مار پیٹ اور تشدد سہتے رہتے ہیں۔ اس تنظیم نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ ہندوستان سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹاکر خالص ہندواشٹر بنانا چاہتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Hindu Rashtarya Sena is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 July 2014 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.