ہندووٴں کی عالمی تنظیم ورلڈ ہندوفاوٴنڈیشن کے تحت بھارت میں عالمی ھندو کانگریس 2014

ہندووستان کی ہندو راشٹر بنانے کی تحریک میں تیزی آگئی۔۔۔ جلاوطن تبتی رہنما دلائی لامہ سمیت 40 ملکوں کے 200 سے زائد ہندو مذہبی رہنماوٴں کی شرکت

اتوار 28 دسمبر 2014

India Main Aalmi Hindu Congress 2014
رابعہ عظمت :
ہندووٴں کی عالمی تنظیم ورلڈ ہندو فاوٴنڈیشن کے تحت بھارت کے دارالحکومت دہلی میں عالمی ہندو کانگریس کا انعقاد ہوا۔ جس میں 40 ملکوں کے 200 سے زائد ہندومذہبی رہنماوٴں اور مذہبی نمائندگان نے شرکت کی۔ دارالحکومت میں اس کانگریس کو ہندو فرقہ پرست پارٹی ویشواہندو پریشد کا تعاون حاصل تھا۔ اس میں مرکزی حکومت کے کئی وزراء بھی شریک ہوئے جنہوں نے آرا یس سربراہ موہن بھاگوت سے آشیربادلی۔

مذکورہ سہ روزہ کانگریس کا آغاز ویشواہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل کے متنازع خطاب سے ہوا۔ وہ یہ بیان دینے نہیں تھکتے کہ ہندوستان اصل میں ہندووٴں کا ملک ہے اور یہاں بسنے والے دوسرے مذہب کے لوگوں کو بھی یا تو اسی مذیب اور اس کی دیومالائی تہذیب میں ضم ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

انہیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے سیاست وروز گار میں برابر ی اور بھارتی شہریت کی دعویداری کا کوئی حق نہیں ہے۔

ابھی چند ماہ قبل جب مرکز مودی کی حکومت آئی تھی تو فرقہ پرست لیڈر نے بی جے پی کو انتخابی منشور کی یاد لائی تھی اور وزیراعظم مودی سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اب جتنی جلدی ہو سکے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کر دینا چاہیے۔ واضح رہے کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت جن جنونی اور ہندو ازم کے علمبردار سیاسی و مذہبی رہنماوٴں کی سرکرد گی میں ہوئی تھی۔

ان میں اشوک سنگھل بھی شامل تھے۔ اشوک سنگھل نے مودی حکومت کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے پھر یہ راگ چھڑا کہ دہلی میں گزشتہ 800 سال کے بعد ہندووٴں کی حکومت آئی تھی حالانکہ اگر وہ کانگریسی حکومت کو چھانٹ بھی دیں (جو ساڑھے ننانوے فیصد ہندووٴں پر مشتمل ہے)۔ قبل ازیں جے پی لیڈر واجپائی بھی ہندوستان میں مرکز میں برسراقتدار رہ چکے ہیں۔ ایچ ڈی دیو گوڑا بھی مسلمان نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ان کی اس بات کے بین السطور پر غور کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ اور ان کا بھگواٹولہ مودی کے وزارت عظمیٰ پر فائز ہو جانے کے بعد اس خام خیالی میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ اب ہندوستان جلد ہی ہندوراشٹر میں تبدیل ہوجائے گا۔ یعنی کہ ویشواہندو پر یشد لیڈر اشوک سنگھل نے ورلڈ ہندو کانگریس میں ایک بار پھر سنگھ پریوار کے ہندوراشٹر کے منصوبے اور عزائم کو عیاں کرد یا ہے کیونکہ آرایس ایس کے موجودہ صدر موہن بھاگوت نے بھی مذکورہ کانگریس میں نعرہ بلند کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندو بیدار ہو جائیں بلکہ دنیا کی رہنمائی کریں۔

اگرچہ بھگوا سیاست خود کو قابل قبول بنانے کے لئے ہندو رواج یا رام راج کا نام نہیں لے رہی، مگر بھاگوت اور سنگھل کے زہر آلودہ بیانات بتارہے ہیں کہ سنگھ پر یوار کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کانگریس میں اجے ہندو پر زور دیا گیا جس کا مطلب ہے ناقابل شکست ہندو بنانا۔
ہندو کانفرنس میں سنگھ پر یوار کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ دنیا کو ہندو نظریات اور خیالات کی اشد ضرورت ہے ۔

انہوں نے ہندو سوامی وسوامی ودیکانند کے اس پیغام کو دہرایا کہ جاگو اور ہلو۔ آر ایس سربراہ نے مزید کہا کہ آج پچاس ممالک کے ہندو اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس سے بہتر وقت اور کیا ہو سکتا ہے ۔ رولڈ ہندو کانگریس میں تبتی جلاوطن لیڈر دلائی لامہ نے بھی شرکت کی۔اس نے کہا کہ ہندو اور بدھ مذہب روحانی طور پر بھائی ہیں۔
کیندریہ ودیالہ میں سنسکرت کے بجائے جرمن کو تیسری زبان کے طور پر شامل کرنے پر اشوک سنگھل نے کہا کہ سنسکرت ہندوستان کی زبان ہے۔

اگر سنسکرت ختم ہو گی تو ہمارا ملک ختم ہو جائے گا۔
ورلڈ کانگریس 2014 میں بھارتی وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ اور فرقہ پرست لیڈر نتن گڈکری نے ہندووٴں کے اجتماع کو یقین دلایا کہ موجودہ انتہا پسند حکومت نے سینو سمندرم شپنگ کینال منصوبے کو تیار کر لیا ہے۔ اجلاس میں ہندوازم کے فروغ پر زور دیا گیا اور اس کے لئے ہندونوجوان نسل کو تیار کرنے کے متعدد منصوبوں کا ذکر بھی ہوا تاکہ ان کے ذریعے ہندومذہب پوری دنیا میں پھیل جائے ۔

آر ایس ایس کے پر چار کوں نے کہا کہ وہ ہزار سلا قبل ہندو ایک طاقت تھا اوراب ایک بار پھر ہندوجاگ گیاہے۔ تبت کے جلاوطن لیڈر دلائی لامہ نے کانفرنس کے دوران مزید کہا کہ مصر ، چین ہندوستان دنیاکہ سب سے قدیم تہذیب ہے۔ جبکہ دلائی لامہ کی باتوں کا اشوک سنگھل پ اس قدر اثرا ہوا کہ انہوں نے تبتی جلاوطن لیڈر کو بھارت کا سب سے بڑا اعزاز ، بھارت رتن ، نواز نے کی وکالت کی۔

تاہم انتہا پسند مسلم وشمن لیڈر اشوک سنگھل پوری کانفرنس کے دوران ہندوراج ،ہندودھرم کو بار بار دہراتے رہے اور کھل کر مسلم دشمنی کا پرچار ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آرایس ایس کے ارادے کیا ہیں اور یہ کہ سنگھ پریوار اپنے مشن پر عملدرآمد شروع کرچکا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ورلڈ ہندو کانگریس میں متعدد وزراء شریک ہوئے مگر نریندر مودی اس سے دور رہے۔

بہر حال کچھ بھی ہو یہ واضح ہو چکاہے کہ سنگھ پریوار کیا چاہتا ہے۔
غیر جانبدار بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آریس ایس اب تعلیمی نصاب میں بھگوا رنگ ڈال رہی ہے۔ میڈیا پر قبضہ کر رہی ہے اور معاشرے کو بھگوا بنانے میں سرگرم ہے رولڈ ہندو کانگریس میں سنگھ پریوار اور بی جے پی کے حکومتی وزیروں نے اپنے مذموم عزائم کھل کر دنیا کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جبکہ سرکاری منصوبوں کے نام انتہا پسند اور ہندو توا نظریات کے حامل لیڈروں کے نام پر رکھنے کی تجویز دینا ، دینا ناتھ بترا جیسے فرقہ پرست مصنف کی کتابوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا تاریخ کو درست کرنے کے نام پر اس مسخ کرنے کی کوشش کرنا یہ سب ہندوستان کو ہندووں کو اس بات کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جب اور جہاں چاہیں مسلمانوں پر جھپٹ پڑیں۔

اس کام کے لئے ہندوستان بھر میں اپنے چیلے غنڈے چھوڑ چکے ہیں۔ ساکشی مہاراج، پوکی آدیتہ ناتھ بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔
قبل ازیں رواں سال جون میں تیسرے آل انڈیا ہندو کنونشن جن میں 20 ریاستوں کی 125 ہندو تنظیموں کے چار سو نمائندوں نے شرکت کی تھی اور ہندو نیپال کے تعاون سے دونوں ممالک کو مکمل ہندوراشٹر بنانے سے متعلق قرار داد بھی منظور کی گئی تھی ۔

قرار دداد کے مطابق مجوزہ ہندو راشٹر میں ہندووں کو مستحکم بنانے کے لئے شہریوں کے لئے یکساں سول کو ڈ، بنگلہ دیشی مسلمانوں کے یہاں سے بے دخل کرنا شامل ہے۔ جبکہ اس قرار داد میں اشوک سنگھل نے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان بابری مسجد سمیت کاشی اور متھرا کی مساجد سے بھی دستبرداری اختیار کر لیں۔ دستور کی دفعہ 370 کو حذف کر دیا جائے اور ہندو کنونشن میں ایک مطالبہ یہ بھی کیا گیا تھا کہ پورے ہندوستان کیلئے ایک قومی تعلیمی بورڈ تشکیل دیا جائے۔

مدارس ، مشنری،تعلیمی اداروں یتیم خانوں، اقلیتی کمیشن کو ہی ختم کر دیا جائے۔ ہندوکنونشن کے بعد ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی تحریک میں شدت پیداکردی گئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھوٹان کے دورے سے اپنے بیرون سفر کا آغاز کیا جہاں بدھ مذہب سرکاری مذہب ہے ۔نیپال کو دیدک سناتھن ہندوراشٹر کہا جاتا ہے۔ آگریہ کہ آئین کی رو سے وہ بھی ایک سیکولر ریاست ہے۔

تاہم نیپال کو شیوابھومی (شیوا کی سرزمین) تاپو بھومی (تزکیہ نفس کی سرزمین) گیان بھومی معلومات کا سرچشمہ اور گاوٴر کشا بھومی کہا جاتا ہے۔نریندرمودی کو دورہ نیپال کے دوران نیپال کے مشہور پیشاتی ناتھ مندر میں پوجا کے بعد وہاں کے سوامی نے ہندو دھرم کا چہرہ قرار دیا۔
بہرحال ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کی تحریک کا آغاز تو تقسیم برصغیر سے قبل ہی ہوچکا تھا مگر 1980 میں بی جے پی کے قیام کے بعد اسے تقویت ملی۔

6 دسمبر 1992 کو اس سلسلہ میں ہندوتواطاقتوں کی کامیابی کا سب سے بڑا دن تھا جب بابری مسجد کا شہید کیا گیا۔ رام مندر تحریک سے رام راجیہ یا ہندو راشٹر بنانے کی تحریک ہنوز جاری ہے۔کانگریس سمیت دیگر نام نہاد سیکولر جماعتوں کی منافقت اور دو ہرے پن نے ہندو تواقوتوں کے طاقت بخشی۔ گودھرا واقعہ کو بنیاد بنا کر 2002 میں گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔

مسلمانوں کے قاتل اعظم نریندرمودی کا پھانسی پر چڑھانے کے بجائے انعام کے طور پر وزارت عظمیٰ عطا کردی گئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ سیکولر کہلوانے والے ہندوستان میں ہر شعبہ حیات میں ہندوتواطاقتیں غالب آچکی ہیں۔ بھارتی ممتاز ناول نگار اور سماجی کارکن ارون دھتی رائے کے مطابق”ہندوستان ایک کارپورٹ ہندوسیٹلائٹ اسٹیٹ ہے۔“
کشمیری کالم نگار سید فردوس نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ” جس ملک میں بال ٹھاکرے جیسی شخصیت کی ترنگے میں لپیٹ کر آخری رسومات انجام دی جائیں۔

فرقہ وارانہ لسانی وعلاقائی خطوط پر منافرت پھیلانے والے کے آخری دیدار کے لئے نام نہاد سیکولر قائدین کی موجودگی کے بعد یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈ سے کی تائید کرنے والے اکثریت میں آنے کے بعد گوڈ سے کو ملک کا نیاباپو قرار دیں گے۔
ہندوستان کا کل تک اکثریت سیکولر اقدار پر یقین رکھتی تھی تاہم اب نظریات بدل چکے ہیں۔

سیکولر ازم کی آڑ میں ہندو تو انظر یہ کو فروغ دینے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔
بھارت میں انتہاپسندی انتہا کو پہنچ چکی ہے جس کو واضح ثبوت آگرہ میں 200 مسلمانوں کو زبردستی ڈرا دھمکا کر ہندو بنانا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آگرہ کی ایک کچی بستی میں غیریب مسلمان خاندانوں کو گھر واپسی کے نام پر ان کا مذہب تبدیل کروا دیا گیا۔ اس تقریب کی تصاویر بھی اخبار میں شائع ہوئی ہیں جس میں ٹوپی پہنے ہوئے کچھ مسلمان ایک ہندو مذہبی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ تقریب ویشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دھرم اگرن منچ کی جانب سے منعقد کرائی گئی۔مسلمانوں کو دھوکے سے تقریب میں بلایا گیا، مسلمانوں کو راشن کارڈ اور شناختی کارڈ بنوانے کا لالچ دیا گیا۔ بجرنگ دل کے مقامی رہنما چوہان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا اب وہ خوف کی وجہ سے الزام لگا رہے ہیں۔ مقامی مسلمانون کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے تقریب میں شریک ہوئے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق مغربی بنگال اور بہار سے ہے۔ بی بی سی کے مطابق گزشتہ ایک برس میں بھارت میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔ متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو سخت اور واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکمران بے جے پی پر سیکولر اصولوں سے کھلواڑ کرنے کا الزام لگایا۔


اسی طرح کرسمس کے موقع پر علی گڑھ میں کم از کم پانچ ہزار مسلمان اور مسیحی ہندو دھرم اختیار کرلیں گے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ”پرکھوں کی گھر واپسی‘ پروگرام کے تحت دوسو مسلمانوں کی ہندو دھرم میں شمولیت کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ترکِ اسلام کرنے والے مرد خواتین نے پرسا دکھایا، خواتین نے آرتی اتاری اور دیگر ہندووانہ رسوم ادا کیں۔

خواتین نے ٹائمز آف انڈیا کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس، دھرم جگ رن منچ اور بجرنگ دل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہندو دھرم اختیار کرنے کے بعد انہیں بہتر اور آسودہ زندگی بسر کرنے کاموقع ملے گا۔ اس موقع پر آر ایس ایس کے مقامی سربراہ راجیشور سنگھ نے دعویٰ کیا کہ آر ایس ایس ہر ماہ مسلمانوں کو ہندو دھرم میں داخل کرنے کیلئے پچاس لاکھ روپے خرچ کررہی ہے، 2003ء سے اب تک ہم نے دو لاکھ ستائیس ہزار مسلمانوں اور مسیحیوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر آمادہ کیا جبکہ بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ مذہب کی تبدیلی کا یہ عمل زبردستی اور مالی ترغیبات کے ذریعے مکمل ہوا۔

مذہب تبدیل کرنے والے خاندان غریب اور کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندومذہب میں داخل ہونے والے ان خاندانوں کا تعلق آگرہ، فتح پور سیکری، فیروز آباد، اترکھنڈ، من یوری، ایٹھ، مروٹ اور دوسرے علاقوں سے ہے راجیشور نے فخریہ انداز میں بتایا کہ ساٹھ گرجا گھر ان کے قبضہ میں ہیں اور اب ریاست میں کوئی مسیحی عبادت گاہ نہیں، ایک دن گرجا گھروں کی دیواریں گرجائیں گی اور ہمارا دیش صرف ہندو دیش ہوگا۔ ہندو دھرم اختیار کرنے والوں کے نام جلد ہی تبدیل کر دئیے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

India Main Aalmi Hindu Congress 2014 is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 December 2014 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.