ایران سعودی کشمکش

تشخیص ،تدارک اور ذمہ داریاں اس وقت سعودی عرب اور ایران کے مابین جو کشمکش ہے وہ کافی تشویش ناک ہے اور آئے دن کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور اس کشیدگی نے رفتہ رفتہ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

جمعرات 14 جنوری 2016

Iran Saudi Kashmakash

مولانا محمد حنیف جالندھری:
اس وقت سعودی عرب اور ایران کے مابین جو کشمکش ہے وہ کافی تشویش ناک ہے اور آئے دن کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور اس کشیدگی نے رفتہ رفتہ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور آنیوالے دور میں اس کی شکل مزید بھیانک ہونے کا خدشہ ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی درد دل رکھنے والا مسلمان اس صورتحال سے لاتعلق رہ سکتا ہے۔لیکن یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ کوئی کوئی چوبیس گھنٹے میں یا ایک دن میں یا ایک ہفتے میں پیدا ہوئی، عالم اسلام کو گزشتہ کئی برسوں سے اس صورتحال کا سامنا ہے۔ لبنان ہو یایمن ہو، شام ہو یا عراق ہو ، بحرین ہو یا سعودی عرب ہو ان تمام ممالک میں ایک عرصے سے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل وغارتگری اور فرقہ وارانہ کشیدگی اور باہمی کشمکش کا جو ماحول بنایاجارہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ اسے شیعہ سنی رنگ نہ دیا جائے ،اسے فرقہ ورانہ لڑائی نہ کہا جائے ،اس جنگ کو ایران اور سعودی عرب کی سرحدوں سے باہر نہ نکالاجائے لیکن بد قسمتی سے ایسا عملاًممکن نہیں۔ ہماری خواہش یہی ہے اور ہونی بھی چاہیے، ہماری کوشش یہی ہے اور یہی ہونی چاہیے کہ اس کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے لیکن یہ ایک زمینی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قضیہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر چکا ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ آگ پھیلتی ہی جارہی ہے۔ اس وقت پاکستان ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے۔پاکستان کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ اس صورتحال میں کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔ ایسے میں ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عساکر پاکستا ن نے جس طرح عالم اسلام کی اکثریت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جس طرح حرمین شریفین کے دفاع کے عزم کا اظہار کیا یہ انتہائی دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو مزیدآگے بڑھ کر اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے، اس وقت دنیا کی نظریں ترکی اور پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ان دونوں ممالک پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پرکل جماعتی قومی کانفرس طلب کی جائے جس میں پاکستان کی مذہبی ،سیاسی اور عسکری قیادت سرجوڑ کر بیٹھے اور اس مسئلے کا حل سوچے۔خاص طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مذہبی قیادت پر سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مذہبی قائدین اور علماء وذاکرین کوشش کریں کہ اس کشمکش کی بنیاد پر کم از کم پاکستان میں فرقہ واریت کوہوا نہ دی جائے۔ہمارے ہاں رفتہ رفتہ یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ جو آدمی ہمارے فرقے ، مسلک اور مذہب کا ہے اسے ہزار اور لاکھ قتل بھی معاف ،وہ دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند ہے اور دوسرے فرقے ، مسلک اور مذہب کا آدمی کیسا ہی کیوں نہ ہو وہ دہشت گرد ہی ہے ہمیں یہ سوچ تبدیل کرنی ہوگی اور یہ طے کرنا ہو گا کہ ہر دہشت گرد دہشت گرد ہے، باغی باغی ہے خواہ وہ حوثی ہو خواہ وہ داعش ہو یا کوئی بھی ہو۔ جب ہم دہشت گردوں کو دہشت گردسمجھیں گے ،جب ہم ہر سطح پر غیر ملکی مداخلت کی نفی اور مذمت کرینگے ،جب سب مل کر شرپسند عناصر کو توسیع پسندی سے باز رکھنے کی کوشش کرینگے تب ہی انصاف ہو سکے گا اور عالم اسلام کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نجات دلائی جا سکے گی۔علمائے کرام، مذہبی قیادت، سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سطح پر کوشش کریں کہ اس کشمکش کو انصاف اور عدل کی نگاہ سے پیش کیا جائے مسلک اور نظریے کی بنیا دپر نہ پیش کیا جائے ،دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کو کو شیعہ سنی لڑائی کا نام نہ دیا جائے اور خاص طور پر پاکستان اپنے بہتر مستقبل اور اپنے مفاد میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کیلئے کسی شیعہ سنی بیڑی کا پابند نہ رہے۔بعض لوگوں کی طرف سے سعودی عرب میں کچھ دہشتگردوں اور باغیوں کی پھانسی پر احتجاج کے درست ہونے کیلئے مزارات کے انہدام کے موقع پر کیے جانیوالے احتجاج کو بنیا دبنایا جاتا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے کہ کہاں ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کے مزارات کا معاملہ اور کہاں دہشتگردوں اور باغیوں کی وکالت ان دونوں معاملات میں کوئی جوڑ نہیں۔کچھ لوگ پھانسیوں اور سزائے موت کیخلاف سراپا احتجاج ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا سعودی عرب کی موت سزائے موت ہوتی ہے اور وہاں کی پھانسی ہی ا نسانوں کی جان لیتی ہے دیگر ممالک کی سزائے موت پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے اور دیگر ممالک میں پھانسی کے پھندوں پر جھولتی نعشیں جن میں بہت سی نعشیں پاکستانیوں کی بھی ہوتی ہیں ان کو دیکھ کر آنکھیں کیوں موند ھ لی جاتی ہیں ؟ اس وقت کا ایک اور المیہ یہ ہے وہ لوگ جو بظاہروحدت واخوت کے راگ الاپتے ہیں ، دوسروں کو غیر جانبداری کے درس دیتے ہیں ،جو دوسروں کو تو یہ کہتے ہیں کہ حقیقت پسند بنو، مسلک سے بالاتر ہو کر بات کرو، لیکن انکی خود اپنی گفتگو حقیقت پسندی پر مبنی نہیں ہوتی ،انکی اپنی گفتگوکے ایک ایک لفظ اور ہر ہر حرف سے یہ اندازہ ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ مسلک کی بنیاد پر ہی وکالت کر رہے ہیں، اپنے فرقے کی ترجمانی کر رہے ہیں اور اپنے محسن ممالک کا دفاع کر رہے ہیں۔ آپ ٹی وی مباحثوں اور مذاکروں میں ہونے والی گفتگو سے خوداندازہ لگا لیں تو آپ کو قول وفعل کا تضاد واضح نظر آئیگا، دوسروں کو مسلک سے بالاتر ہو نے کی تلقین کرنیوالے بدترین مسلکی تعصب کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیں گے۔ اس وقت دنیا میں جو شیعہ سنی صورت حال ہے یا پاکستان میں جو قتل وغارت گری ہے ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنا ہوگا کہ اسکے اسباب کیا ہیں؟ اسکے محرکات کیا ہیں؟ اسکے عوامل کیا ہیں؟ ہم جب رد عمل کو دیکھتے ہیں تو عمل کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا پاکستان اور عالم اسلام کے اکثر ممالک بعض ممالک کے توسیع پسندانہ عزائم کی زد میں نہیں ہیں ؟ کیا وہ اپنے افکار ونظریات اور مسلک کو دوسرے ملکوں میں پروموٹ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے؟ کیا پاکستا ن اور دیگر کئی ملکوں کے اندر قابل اعتراض لٹریچر اور اسلحہ نہیں بھیجا گیا؟کیا مختلف انداز سے مداخلت نہیں کی جارہی؟یہ بات اپنی جگہ بالکل درست اور ناقابل انکار حقیقت ہے کہ شیعہ تنظیموں اور شیعہ افراد کے رابطے ایران کے ساتھ ہو تے ہیں اور دوسری طرف کے لوگوں کے سنی ممالک کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں، ہمیں ایک غیر جانبدارنہ اور منصفانہ تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ماحول کو بہتر رکھنے کیلئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی لیکن اس کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ ہم انصاف کی نظر سے دیکھیں، فریق بن کر نہیں رفیق بن کر سوچیں،ہم زبان سے تو کہیں کہ رفیق ہیں، تجزیہ ہمارا ایسا ہو جو فریق ہونے کی دلیل ہو، تو میں سمجھتا ہو کہ یہ منصفانہ نہیں ہوگا۔آج کسی کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی، دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے کہ کس کے کیاعزائم ہیں؟ کیا صورت ِحال ہے؟ اور کن بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور کن اصولوں پر پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں؟۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس کشیدگی کو ہر سطح پر کم کرنے کی کوشش کریں۔ ہم تحمل اور برداشت اور رواداری کو فروغ دیں۔ آج دشمن نے جو آگ لگائی ہے ہم اپنے وطن اور اپنی سوسائٹی اورمعاشرے کو اس آگ سے بچانے کی کوشش کریں۔ہم اس آگ کوبجھانے والے لوگ ہیں ، آگ لگانے والے لوگ نہیں ہے۔ ہم تو سب کا احترام کرتے ہیں، سب کو مانتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ دشمن اور طاغوتی طاقتوں کی سازشیں تب ناکام ہوں گی جب ہمارے درمیان اتحاد ہوگا اور اتحاد محض زبانی نہیں بلکہ عملی ہوگا، ہم میں سے جو لوگ وحدت کا اعلان اوردعوی کرتے ہیں ،مگر انکا عمل وحدت کا نہیں افتراق امت کا باعث بن رہا ہے، ہمیں اس سے گریز کرنا ہوگااور امن واستحکام اور بھائی چارے کو فروغ دینے اور پْر امن بقائے باہمی یعنی جیو اور جینے دوکی پالیسی کو رواج دینے کی کوشش کرنی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Iran Saudi Kashmakash is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 January 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.