لیبیا میں غیر ملکی مداخلت

امریکہ اور اسکے اتحادی فیصلہ کرچکے ہیں

بدھ 24 فروری 2016

Libya Main Ghair Mulki Mudakhlat
لیبیاچند برس قبل امریکی عتاب اورغیض وغضب کا نشان بن چکا ہے۔ امریکہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی دشمنی کی نسبت اس کی دوستی زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ امریکہ نے صدام حسین اور معمرقذافی کاجواحال کیا وہ پوری دنیا کے سامنے اس کی دوستی کی عمدہ مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی قوتیں اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے آمروں کی سرپرستی اور پشت پناہی کرتے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعدانہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کیاجاتا ہے۔

لیبا میں بھی کچھ ایسی صورتحال نے جنم لیا۔قصہ کچھ یوں ہے کہ مغربی قوتوں اور معمرقذافی میں عرصہ دراز سے کشمکش کا سلسلہ جاری تھا۔ لیبا کے صدر معمر قذافی نے عالمی قوتوں کے دباؤ پر 2003ء میں امریکہ اور مغربی ممالک کے مطالبات ماننے ہوئے اپنا جو ہری پروگرام بند کردیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے مغربی سرمایہ کاروں کو ملک میں کاروبار کی اجازت بھی دے دی۔ 2009ء میں معمرقذافی ملک میں موجود تیل کے ذخائر کو قومیانے کی باتیں کرنے لگے اور انہوں نے مغربی ممالک کے ساتھ اختلافات ہونے پر ان کے سرمایہ کاروں پر پابندی عائد کردی۔

انہی اختلافات کے باعث امریکہ اور مغرب نے قذافی کی حکومت کو ختم کرنے کی حکمت عملی بنائی تاکہ تیل کہ دولت سے مالامال لیبیا کے وسائل پر قبضہ کر سکے۔ لیبیا میں امریکہ اور مغربی مداخلت کے بدترین اثرات یہ رونما ہوئے کہ یہاں جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ ساتھ شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ جس طرح عراق میں امریکی مداخلت داعش کی پیدائش کی وجہ بنی بالکل اسی طرح داعش لیبیا میں اپنے قدم جمارہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت لیبیا میں داعش کے 5000سے زائد جنگجو موجود ہیں جو زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی مداخلت اورکرنل قذافی کی ہلاکت کے بعد لیبیا ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں کسی بھی قسم کی مضبوط حکومت موجود نہیں۔ امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں لیبیا کو خانہ جنگی کے عذاب میں جھونک کراس کے وسائل کولوٹنے میں مصروف رہیں اور ملک مسائل اور مسائل میں دھنستا چلا گیا۔

یہاں مضبوط حکومت اور نظام نہ ہونے کے باعث ہی داعش جیسی تنظیمیں اس میں خاص دلچسپی لے رہی ہیں۔ داعش جیسی تنظیمیں تیل کی دولت سے مالا مال افریقی ملک لیبیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں۔ گرشتہ برس پیرس اور کیلیفور دنیا میں داعش کے منظم حملوں کے بعد امریکہ ویورپ میں اس کی دہشت پھیل چکی ہے۔ شہریوں میں مزید حملوں کا خوف پایا جاتا ہے۔

لیبیا میں خراب حالات کے باعث وہاں سے ہزاروں پناہ گزین یورپ کا رخ کررہے ہیں۔ فرانس کے وزیر دفاع نے وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے جنگجو لیبیا سے یورپ آنے والے مہاجرین کے ساتھ ان کا روپ اختیار کرکے قافلوں میں سفر کررہے ہیں۔ ان اطلاعات پرامریکہ اور اس کے اتحادیوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ اس صورتحال پر قومی سلامتی سے متعلق مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کاکہناتھا کہ امریکہ داعش کی شدت پسندی کے انسداداور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کسی بھی ملک میں اپنی کارروائیاں کرسکتا ہے۔

صدر اوبامہ نے نیشنل سکیورٹی ٹیم کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ لیبیا سمیت ان تمام ممالک میں، جہاں داعش کے عسکریت پسند مستحکم ہونے کی کوشش کررہے ہیں، انسداد دہشت گردی کی کوشش جاری رکھی جائیں۔ لیبیا میں داعش کے جنگجوؤں کامقابلہ کرنے کیلئے امریکہ فرانس اور برطانیہ کارروائی کرنے کا مکمل منصوبہ وار ادہ رکھتے ہیں لیکن وہ ایسے ملک پر کارروائی کرنے سے ہچکچا رہے ہیں جہاں حکومت نام کی چیز نہیں ہے کیونکہ بیرونی قوتیں سیاسی معاہدوں اور منتخب جمہوری حکومتوں کی درخواست پر ہی ان کے ممالک میں مداخلت کرتی ہیں۔

اس وقت بیرونی قوتوں کانہ لیبیا کے ساتھ کوئی سیاسی معاہدہ ہے اور نہ ہی وہاں حکومت کاکوئی تصور ہے۔ آنے والے چنددنوں میں یہ معلوم ہوجائے گا امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں لیبیا میں داعش کا قلع قمع کرنے کیلئے کیا حکمت عملی بناتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Libya Main Ghair Mulki Mudakhlat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 February 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.