مہاجرین کی آبادکاری

کیاجرمنی انجیلا مرکل کے اعلانات پر عملدآمد کر پائے گا ؟۔۔۔۔ جرمنی کا دارالحکومت برلن جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین کا بڑا مسکن بن چکا ہے۔ جرمنی میں اس وقت لاکھوں مہارین موجودہیں جو نہایت بے صبری سے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں

منگل 8 مارچ 2016

Mahajareen Ki AbadKari
جرمنی کا دارالحکومت برلن جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین کا بڑا مسکن بن چکا ہے۔ جرمنی میں اس وقت لاکھوں مہارین موجودہیں جو نہایت بے صبری سے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ جرمن حکام ان کی رجسٹریشن کے عمل کو جلداز جلد مکمل کریں۔ یہ مہاجرین اس انجانے دیس میں کسی قسم کی قانونی حیثیت نہ ملنے پر اجنبیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

تعلیم یافتہ افراد ملازمت کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس یہاں رہنے کے لیے ویزہ نہیں ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم تعلیمی سرگرمیوں سے محروم ہو چکے ہیں اور اچھے دنوں کی یادوں کے سہارے ہجرت کی اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔
جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے خواہشمند مہاجرین سماجی، معاشی اور تعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ رُک جانے کے باعث بوریت سے بھر پور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

ان مہاجرین میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جن کی قسمت انہیں اپنے آبائی وطن سے بیگانے دیس میں لے آئی ہے ۔ انہی میں افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک 24 سالہ نوجوان ایاز بھی شامل ہے جس نے طالبان کی سخت گیر ریاست سے فرار حاصل کرتے ہوئے کئی مہینے سڑکوں پر دھکے کھائے۔ اس نے انسانی اسمگلروں کو بھاری رقم دی تاکہ وہ اسے یورپ تک پہنچا سکیں۔

اس نے جرمنی تک پہنتے ہوئے کئی تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں کتنے ممالک کی سرحدیں عبور کیں اور اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالا یہ ایک الگ داستان ہے۔ ایاز کا کہنا ہے کہ اس نے کابل یورنیورسٹی سے معاشیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے لیکن وہ یہاں اس وقت تک کام نہیں کر سکتا جب تک اسے یہاں رہنے کی قانونی اجازت نہیں دے دی جاتی۔ وہ خود کو مصروف رکھنا چاہتا ہے ۔

ایاز جم خانے کے فرش کی صفائی ستھرائی کرتا رہتا ہے وہ لوگوں میں کھانا تقسیم کرتا ہے اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے ساتھ اپنی اور ان کی کہانیاں شیئر کرتا رہتا ہے ان کاموں اور طریقہ سے وہ خود کو مصروف رکھنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔
ادریس کا تعلق مغربی شام کے ساحلی شہر سطاکیہ سے ہے وہ ی کوشش کررہا ہے کہ وہ اور دیگر مہاجرین جرمن زبان سیکھ جائیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اجنبی دیس میں آباد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں بولی جانے والی زبان پر عبور حاصل کیا جائے۔

اس کام میں اسے بہت سے رضا کاروں کا تعاون میسر ہے جو ہفتہ وار کلاسوں کے ذریعے اچھے اور محفوظ مستقبل کی تلاش میں دربدر بحٹکنے والے ان بدنصیب لوگوں کو جرمن زبان سکھاتے ہیں۔ مہاجرین جرمن معاشرے اور شہریوں کے ساتھ زیادہ رابطہ میں نہیں ہیں لیکن ماہرین معاشیات نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مہاجرین کے جرمن معاشرے میں انضمام کے عمل کو تیز رفتار بنائیں۔

تھامس لائی بگ جو مہاجرین کے متعلق معاشی معاملات کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں کا کہنا ہے کہ حکومت سرکاری سطح پر مہاجرین کے لیے جرمن زبان کے خصوصی کورسز شروع کرے تاکہ ایک پرُامن معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کو مزید کہنا تھا کہ سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی تعلیم اور فنی قابلیت کی جانچ پڑتال کو یقینی بنایا جائے۔ جو لوگ تعلیمی لحاظ سے پست ہیں ان کے لیے بھی خصوصی کلاسز شروع کی جانی چاہئیں۔


ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2015 میں 101 ملین مہاجرین نے جرمنی کا رخ کیا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل مہاجرین کی آبادکاری کے حوالے سے حوصلہ بخش اقدامات کرنے کی یقین دہانی کروا چکی ہیں۔ تاہم اب بھی تین سے چارک لاکھ مہاجرین تاحال یہ انتظار کر رہے ہیں کہ انہیں جرمن حکام کب رجسٹرڈ کرتے ہیں اور وہ کب قانونی حیثیت اختیار کرتے ہوئے سماجی کاموں کا حصہ بنیں گے جس کا جرمن چانسلر عالمی سطح پر بار ہا اعادہ کر چکی ہیں اور اس حوالے سے ہر طرح کے سیاسی دباو کو بھی مسترد کر چکی ہیں۔

جرمنی میں دائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاستدان اور جماعتیں غیر ملکی تارکینِ وطن کو جرمن معاشرت اور معیشت کے لیے خطرہ تصور کرتی ہیں اور ان مہاجرین کو جرمنی میں آباد کرنے کی شدید مخالف ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mahajareen Ki AbadKari is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.