مودی سرکار کا وقار داوٴ پر لگ گیا

بھارت کی پانچ ریاستوں میں ریاستوں انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور آسام میں الیکشن حتمی مراحل میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان پانچ ریاستوں میں مودی سرکار کا وقار داوٴ پر لگا ہو اہے۔ اگرچہ وہ ان میں سے کسی میں بھی اقتدار میں نہیں اس کے باوجود یہاں کے نتائج یہ مودی حکومت کے مستقبل کا تعین کریں گے

بدھ 11 مئی 2016

Modi Sarkar Ka Waqar Dao per Lag Giya
رابعہ عظمت :
بھارت کی پانچ ریاستوں میں ریاستوں انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور آسام میں الیکشن حتمی مراحل میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان پانچ ریاستوں میں مودی سرکار کا وقار داوٴ پر لگا ہو اہے۔ اگرچہ وہ ان میں سے کسی میں بھی اقتدار میں نہیں اس کے باوجود یہاں کے نتائج یہ مودی حکومت کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ آج کل بھارتی میڈیا میں یہ سوالات گردش کر رہے ہیں کہ کون جیتے گا اور کس کی کشتی ڈوب جائے گی؟ کیا کیرالا میں کانگریس کے ہاتھ سے اقتدار نکل جائے گا اور کیا بی جے پی اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکے گئی یا نہیں ؟ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔


بھارتی ریاست آسام میں اسمبلی کہ 126 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

مغربی بنگال کی 294 نشستوں پر سات مرحلوں می پولنگ ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد کیرالہ کی 140 تامل ناڈو کی 234 اور پانڈوچری کی 30 نشستوں پر ایک مرحلے میں الیکشن ہو نگے۔ ان انتخابات میں کانگریس ، بی جے پی، بائیں بازو کی پارٹیاں ، ترنمول کانگریس ،ا ناڈی ایم کے، ڈی ایم، آسام گن پریشد اور آل آنڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے ساتھ این آرکا نگریس بھی میدان میں اتری ہیں۔

این آرکا نگریس بھارتی ریاست پانڈی یچری میں برسرِ اقتدار ہے۔ تاہم بی جے پی صرف آسام،مغربی بنگال میں حکومت کی جنگ لڑرہی ہے۔ آسام میں کانگریس کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بی جے پی نے علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کیا ہوا ہے۔ پانڈیچری میں نگریس اہم اپوزیشن پارٹی ہے۔ آسام کے انتخابی نتائج مودی حکومت کے لیے زیادہ اہم ہیں۔ کیونکہ 2017 کے اسمبلی انتخابات پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔


مغربی بنگال میں بی جے پی کے پاس اسمبلی کی صرف ایک سیٹ تھی۔مگر اب وہ بھی نہیں بچ پائے گی کیونکہ وہاں ترنمول کانگریس کاپلڑا بھاری ہے۔ اور قوی امکان ہے کہ ترنمول کا نگریس 90 فیصد اسمبلی نشستیں جیت جائے گی ۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کو 184 نشستیں ملی تھیں۔ جب کہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے حصے میں 62 سیٹیں آئی تھیں۔

کانگریس کو 24 نشستیں ملیں۔ مگر اب اس کے بیشتر ارکان ترنمول کانگریس میں شامل ہو چکے ہیں۔ بنگال میں بی جے پی کا بالکل وجود نہیں ہے۔ یہاں اسے سب سے بڑا چیلنج اپنا کھاتہ کھولنے کا ہے۔ اس لیے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی کمر ٹوٹ سکتی ہے۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت والے بائیں بازو کے محاذ کے لیے ان دنوں حالات کافی خراب ہیں اس کے سامنے تری پورہ کے علاوہ مغربی بنگال اور کیرالا میں اقتدار کی واپسی کا چیلنج درپیش ہے۔


کیرالا میں کانگریس کی حکومت ہے اور یہاں پر پانچ سال بعد حکومت بدلنے کی روایت موجود ہے ۔ جس کی وجہ سے کمیونسٹوں کی یہاں امید بندھی ہوئی ہے۔ یہاں گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کانگریس اتحاد کو 67 نشستیں ملیں تھی جبکہ کمیونسٹوں کے ہاتھ میں 86 سیٹیں آئی تھیں۔ کیرالا میں بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں دس فیصد ووٹ ملے تھے۔ مگر اب آر ایس ایس نے ماحول کوفرقہ وارانہ کردیا ہے اس کے باوجود یہاں بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔

یہاں سنگھ پر یوار کو منہ کی کھانا پڑ سکتی ہے اور اس کے ووٹوں میں مزیدکی آسکتی ہے۔
آسام میں بی جے پی کو کچھ نشستیں ملنے کی امید ہے۔ یہاں مقابلہ کانگریس ، بی جے پی کی قیادت والے محاذ اور آل آنڈیا نائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے مابین ہے۔ یہ اکیلی ریاست ہے جہاں بی جے پی نے اپنا سارا زور لگا دیا ہے۔ آسام میں کانگریس دس سال سے اقتدار میں ہے۔

اس کے علاوہ مسلم ووٹ بینک بھی اس کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔آسام گن پریشد کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 87 اور بی جے پی کو محض پانچ نشستیں ملی تھی لیکن لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے بازی ماری تھی۔
بھارتی ریاست تامل ناڈو میں حکمران جماعت اے آئی اے ڈی ایم کے خلاف کانگریس اور ڈی ایم کے مابین اتحاد ہے۔

اور بی جے پی بھی اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ اتحاد کی کوشش میں ہے۔ یہاں کی روایت ہے کہ کسی بھی پارٹی کو دوبارہ اقتدار نہیں ملتا۔ اب سوال یہ ہے کیا جے للیتا ایک بار پھر اقتدار میں واپس آئے گی یا نہیں ؟ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں جے للیتا کی پارٹی 302 نشستیں ملی تھیں۔ یوں تو ان اسمبلی الیکشن میں اصل مقابلہ علاقائی پارٹیوں کے درمیان ہے مگر اصل مقابلہ بی جے پی اورکانگریس کے درمیان ہے۔


بھارتیہ جنتا پارٹی آسام میں کانگریس سے اقتدار چھیننے کی پوری کوشش میں ہے اور آسام اسمبلی انتخابات کے لیے بی جے پی کے منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ پارٹی اقتدار میں آنے پر ہندوستان سے ملحقہ بنگلہ دیش کی سرح بند کر دے گی۔بی جے پی کی انتخابی مہم کا سارا زور بھی بنگالی مہاجرین پر رہا اور انہیں بنگلہ دیشی قراد کر ہندوستانی شہریت کے حق سے محروم کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور س موقع پر بی جے پی نے قوم پرستی اور قوم دشمنی کا جو شوشہ چھوڑ اہے یہ اصلی انتخابی ایجنڈہ ہے۔

جن ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہو رہے ہیں وہاں کے زمینی حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ فرقہ پرستی کا مہرہ اور کس حد تک بی جے پی کے کام آسکتا ہے۔ پانڈیچری بہت چھوٹا صوبہ ہے اور وہاں بی جے پی کا کوئی یونٹ بھی نہیں ہے۔
مغربی بنگال کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ممتابنرجی کا مقابلہ کرنا نریندر مودی کے بس کی بات نہیں ۔ اگرچہ ان کی سونیا گاندھی سے کدورت کے بارے میں سب جانتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ ممتابنرجی بنگال میں بلاشرکت غیرے حکومت کرنا چاہتی ہے۔ انہیں اس بار بائیں بازو کے محاز اور کانگریس کے خفیہ معاہدے کی وجہ سے دشواری تو ہے لیکن وہ بی جے پی سے سمجھوتہ کر کے مسلم ووٹ کھونا نہیں چاہتی ۔ مغربی بنگال میں کل مسلم آبادی 27 فیصد ہے۔ ریاست کی کل 294 اسمبلی نشستوں میں سے 85 اسمبلی حلقوں میں 30 فیصد سے مسلمان آباد ہیں۔


بہر حال بہار اور دہلی اسمبلی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو مودی اور امیت شاہ کے لیے سب سے بڑا متحان تصور کیا جا رہا ہے۔ ویسے تو تمام ریاستوں میں مقابلہ انتہائی سخت ہے لیکن مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ آسام اور کیرالہ میں مشکل ہے۔ ان تینو ں ریاستوں میں مقبوضہ کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔

آسام میں 34 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ اور کیرالا میں ان کی تعداد 27 فیصد ہے۔ یہ تینوں ریاستیں ویسے بھی بائیں بازو، ٹی ایم سی اور کانگریس کا گڑھ رہی ہیں۔ بی جے پی کا اس وقت تینوں ریاستوں میں سب کچھ داوٴ پر لگا ہو ا ہے۔ لیکن مسلم ووٹر اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں وہ اگر متحد ہوئے تو بی جی پی کے اقتدار حاصل کرنے کا خواب ادھورا ی رہ جائے گا۔


بھارتی ریاست کیرالہ میں انڈیا یونین لیگ مسلمانوں کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ یہ 1948 میں قائم ہوئی تھی اور انتخابات میں یہ کانگریس کی سب سے بڑی اتحادی ہے۔ اگر اس بار ریاستی حکومتی پارٹی کو اکثریتی ووٹ نہ ملے تو اس کا کوئی فائدہ بی جے پی کو نہیں ہوگا اس کا براہ راست فائدہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ہوگا۔ جو شمالی کیرالہ کے مسلم علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کئے ہوئے ہیں یہاں جو مسلمان کا نگریس اور انڈین یونی لیگ کو ووٹ نہیں دیتے وہ کمیونسٹوں کو ووٹ دیتے ہیں۔

یہاں بی جے پی کا دور دور تک نام ونشان نہیں ملتا اور ریاست کو اس کے اثرات سے دور رکھنے کے لیے سب اہم کردار مسلمانوں کا ہی ہے۔ حالانکہ یہاں ہندو بھی کمیونسٹوں کے زیر اثر ہیں۔ کیرالہ میں عیسائی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں جو بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کیرالہ کی سیاسی قسمت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کے بااثر مسلم لیڈروں میں ابوبکر مسلیا اور چی شہاب تھنگل نمایاں ہیں۔


مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مغربی اضلاع کے 18 انتخابی حلقوں میں 80 فیصد سے زیادہ ٹنگ ہوئی۔ اور آسام میں بھی اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 65 اسمبلی نشستوں پر 70 فیصد سے زائد ووٹ ڈالے گے ہیں۔دوسری جانب مغربی بنگال میں کمیونسٹوں کا اقتدار بھی خطرے میں دکھائی دیتا ہے اور یہاں کمیونسٹوں کا مستقبل داوٴ پر لگا ہوا ہے اورایک بار پھر ممتاز بنرجی اقتدار میں آسکتی ہے۔


شمالی بنگال کے مبصرین کے مطابق ممتاز بنرجی کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے اور وہ کمیونسٹوں کا گڑھ تصور کئے جانے والے جنوبی بنگال میں بھی اکثریتی ووٹ کے حصول میں کامیاب ہو جائیگی۔ اگرچہ ان علاقوں سے زیادہ تر بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن موجودہ حالات کافی بدل چکے ہیں۔
مغربی بنگال وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ”جو طاقتیں مجھے اقتدار سے بے دخل کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ جیسے جیسے انتخابی مراحل پورے ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ان کے پاوٴں کے نیچے سے زمین کھسکتی جائے گی۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Modi Sarkar Ka Waqar Dao per Lag Giya is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 May 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.