پاک ترک سکولوں پر پابندی نامنظور !

وہی ہوا جس کا ہمیں اندیشہ تھا۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے میاں نواز شریف سے پاک ترک سکولوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔کیوں نہ کریں آخر انہوں نے میاں نواز شریف کو تمغہ جمہوریت سے نواز رکھا ہے۔ پاک ترک تعلقات ہمیشہ سے قابل تحسین ہیں۔ پاک ترک عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دونوں اطراف محبت کی بنیاد کا سبب اسلامی تاریخ ہے۔

بدھ 27 جولائی 2016

Pak Turk Schooloon Per Pabandi Namanzoor
طیبہ ضیاء چیمہ:
وہی ہوا جس کا ہمیں اندیشہ تھا۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے میاں نواز شریف سے پاک ترک سکولوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔کیوں نہ کریں آخر انہوں نے میاں نواز شریف کو تمغہ جمہوریت سے نواز رکھا ہے۔ پاک ترک تعلقات ہمیشہ سے قابل تحسین ہیں۔ پاک ترک عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دونوں اطراف محبت کی بنیاد کا سبب اسلامی تاریخ ہے۔

ترک صدر کا فتح اللہ گولن سے ذاتی عناد ہے، اس کا انتقام وہ پوری دنیا میں تعلیمی اداروں پر پابندی کی صورت میں لینا چاہتے ہیں۔ پاکستانیوں کے بچے بھی ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ ہم نے بذات خود امریکہ ،پاکستان اور ترکی میں گولن تحریک کے زیر تحت قائم سکولوں اور کالجوں کا وزٹ کیا۔ رومی فورم کا تحقیقی جائزہ لیا۔

(جاری ہے)

ترک صدر اپنے گھر کی لڑائی میں بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں؟ پاکستان پہلے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور بہترین ماحول سے محروم ہے۔

عمران خان کے بیان کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک ترک سکولوں کی بندش پاکستان میں شرح خواندگی میں مزید کمی کا سبب بنے گی۔ عمران خان نے کہا کہ ہم ترک جمہوریت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن پاک ترک سکولوں کی بندش کسی صورت قابل قبول نہیں۔پاکستان میں نا خواندگی کی شرح پہلے ہی افسو سناک ہے۔میاں نواز شریف نے ترک صدر کو خوش کرنے کے لیئے ایسا کوئی اقدام اٹھایا تو پاکستانی عوام کی جانب سے شدید رد عمل کا سامنا ہو گا۔

پاک ترک تعلیمی اداروں کا کسی سیاست سے تعلق نہیں۔گزشتہ برس ہم نے ترکی میں مولانا جلال الدین رومی کے شہر قونیہ میں گولن تحریک کے زیر تحت چند تعلیمی درسگاہوں کا وزٹ کیا۔دین و دنیا کا حسین امتزاج دیکھ کر جہاں قلبی راحت محسوس ہوئی وہاں مسلمانوں میں حقیقی اسلام کی عملی صورت دیکھ کر ایمان کو مزید تقویت پہنچی۔ان درسگاہوں جیساانتہائی متوازن ماحول شاید ہی کسی اسلامی ملک میں دیکھنے کو ملے۔

یہ لوگ اسلامی اور جدید تعلیم کے نہ صرف دلدادہ ہیں بلکہ ”مولانا رومی یونیورسٹی قونیہ“ کے معیار کی جدید درسگاہوں کا جال پوری دنیا میں بچھا رکھا ہے۔مولانا رومی یونیورسٹی قونیہ میں پاکستان کے چند سٹوڈنٹس سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ بچے پاکستان میں پاک ترک سکولوں سے ہائی سکول کے بعد ”مولانا رومی یونیورسٹی“ میں مختلف مضامین میں پروفیشنل ڈگری کے حصول کے لیئے یہاں زیر تعلیم ہیں۔

پاکستانی طالب علم یہاں بہت خوش اور مطمئن دکھائی دیئے۔ ان طالب علموں نے بتایا کہ وہ ”پاک ترک سکول“ سے اعلیٰ پوزیشن ہولڈر ہیں۔ ان داروں کا ماحول اور تعلیمی معیار تھا جس نے ”مولانا رومی یونیورسٹی “ تک پہنچنے میں مدد دی۔ یہاں کا ماحول انتہائی شفاف اور مہذب ہے۔ لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ مسلم و غیر مسلم ، ملکی و غیر ملکی، ترک و غیر ترک ،سب ایک چھت تلے زیر تعلیم ہیں لیکن بیچ میں اسلامی اقدار کی دیوار حائل ہے۔

سگریٹ نوشی اور دیگر قباحتیں جو دنیا کی دیگر تعلیمی درسگاہوں میں دیکھنے کو مل سکتی ہیں ، مولانا رومی یونیورسٹی میں اس کا شائبہ تک نہیں۔یونیورسٹی کا نام مولانا ہے جبکہ یہاں دنیا کے تمام مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ رومی پر چند کورس مہیا کیئے جاتے ہیں۔ یہاں کا ہوسٹل کا انتظام بھی بہت اعلیٰ ہے۔پاکستانی طالب علموں نے بتایا کہ ہمارا یہاں دل لگا ہوا ہے ۔

پاکستان سے آئے ہوئے ان طالب علموں میں کوئی صحافت پڑھنے آیا ہے، کوئی میڈیکل اور کوئی انجینئرنگ۔ پہلے سال ترک زبان پڑھائی جاتی ہے۔ انجینئرنگ کی ڈگری کے لیئے ترک زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے لیئے جو ادارہ سب سے زیادہ خدمات انجام دے رہا ہے اس کا نام ”گولن موومنٹ“ ہے۔ امریکہ سے ترکی اور دیگر ممالک میں جدید طرز کی اعلیٰ درسگاہیں اس تحریک کی ماڈرن سوچ کی علامت ہیں۔

ترک حکومت اعلیٰ تعلیم کے خلاف ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ ترکوں میں شعور بیدار ہو گیا تو جمہوریت کی آڑ میں آمرانہ سوچ کی سیاست ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائے گی۔ ترک حکومت ”گولن تحریک“ کو اپنے مد مقابل تصور کرتی ہے۔ترکوں کی اکثریت خاص طور پر اسلامی سوچ کی حامل ترک قوم محمد فتح اللہ گولن کی خدمات کی قائل ہے۔ترک حکومت مسٹر گولن کے تعلیمی و صحافتی اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا کوئی ٹھوس الزام ثابت نہیں کر سکی لہذا دہشت گردی کا الزام عائد کیا جا رہاہے جبکہ ”محبت اور امن“ کے داعی رومی کے پیروکاروں کے خلاف ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔

ہر حکومت مد مقابل بڑھتی ہوئی مقبول جماعت سے خوفزدہ ہو تی ہے جبکہ ترکی کو تعلیمی میدان میں ترقی کی جانب گامزن کرنے والی گولن تحریک زندہ ثبوت ہے کہ جسکی تعلیمی خدمات کو ہم نے امریکہ سے ترکی تک اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کا علمی و عملی مشاہدہ و مطالعہ کیا۔ قونیہ میں قائم پہلا جدید طرز کا عالی شان ہائی سکول جسے کالج کہا جاتا ہے اس کا بھی وزٹ کیا۔

ان جدید در سگاہوں کی تعمیر میں حکومت یا کسی ملک کی امداد شامل نہیں، اندرون و بیرون ملک مالدار طبقہ ان درسگاہوں کو چلا رہا ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیوں کی عمارتیں اور ان میں موجود سامان امریکہ کی اعلیٰ درسگاہوں کو مات دے رہا ہے۔ترک پروفیسر امریکہ سے ڈگری ہولڈر ہیں اور اپنے ملک لوٹ کر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے باجود نماز اور خواتین میں شرعی لباس کی پابندی برقرار ہے۔

گولن موومنٹ سے منسلک امیر ترین طبقہ بھی انتہائی منکسر المزاج، سادہ اور متوازن مسلمان ہے۔ ایک ترک صحافی نے بتایا کہ ترک حکومت نیشنلزم کا ڈرامہ کر رہی ہے جبکہ حکومت کی اندرونی کرپشن اور آمرانہ رویہ نیشنلزم کے بر عکس ہے۔ ہمارے سلطان سادگی اور مذہبی اقدار کے قائل تھے اور ہماری حکومت عیش و عشرت اور بد عنوانی کو فروغ دے رہی ہے۔ ہمارے ترک میزبانوں نے ہمیں استنبول میں صدر طیب اردگان کا ایک محل اور مسجد بھی دکھائی اور ان کے بیٹے کی عیاشی اور کرپشن کے قصے بھی بتائے۔

ترکی بظاہر فوج سے نجات پا چکا ہے لیکن آمرانہ سیاست سے نجات حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان میں قائم پاک ترک سکول اور رومی فورم کو ترک صدر کی گولن سے ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ملکوں کی سیاست کو تعلیمی اداروں سے الگ رکھا جائے۔ہم نے امریکہ میں بھی ترک سکولوں کا جائزہ لیا۔ پوری دنیا میں موجود ترک سکولوں میں پاکستانیوں کے بچے بھی زیر تعلیم ہیں۔ گولن تحریک کے زیر انتظام تعلیمی ادارے متوازن سوچ و فکر اور تعلیم و تربیت کی اپنی مثال آپ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Turk Schooloon Per Pabandi Namanzoor is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 July 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.