جرائم کی شرح میں خطرناک اضافہ

ملک بھر میں سال 2014ء میں دہشت گردی، امن و امان کی خراب صورتحال، قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان، خواتین و بچوں کے ساتھ زیادتی و اغوا، ڈکیتیوں و چوریوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور دیگر سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافے نے شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنائے رکھیں

بدھ 31 دسمبر 2014

Jaraim Ki Sharah Main Khatarnak Izafa
احسان شوکت:
ملک بھر میں سال 2014ء میں دہشت گردی، امن و امان کی خراب صورتحال، قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان، خواتین و بچوں کے ساتھ زیادتی و اغوا، ڈکیتیوں و چوریوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور دیگر سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافے نے شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنائے رکھیں۔ جس وجہ سے سال 2014ء لو گوں کے ذہنوں پُرامن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے انتہائی بھیانک اثرات چھوڑتے ہوئے آج رخصت ہو رہا ہے۔

دہشت گردی ، اغوا برائے تاوان، قتل، ڈکیتیوں اور چوریوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، خواتین کے ساتھ زیادتی و اغوا اور دیگر سنگین جرائم نے شہریوں کو شدید خوف و پریشانی میں مبتلا کر رکھا جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جرائم پر قابو پانے اور لوگوں کی زندگیوں اور جان و مال کی حفاظت کے لئے عملاً کوئی موٴثر اقدامات نظر نہ آئے۔

(جاری ہے)

سال 2014ء میں سانحہ پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں سکول میں معصوم بچوں کی ہلاکت کے واقعہ نے پوری قوم کو کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ لاہور میں ماڈل ٹاوٴن منہاج القران سیکرٹریٹ پر پولیس فائرنگ سے14 ہلاکتوں کے علاوہ واہگہ بارڈر پر خودکش حملے کا سنگین سانحہ رونما ہوا جبکہ سانحہ ماڈل ٹاون کا وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وفاقی وزراء اور پولیس افسران سمیت اہم شخصیات کے خلاف تھانہ فیصل ٹاوٴن میں مقدمہ درج ہوا۔

سال 2014ء میں پولیس کی رٹ میں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ جرائم کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتے ہوئے جرائم کے برعکس پولیس پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ اگر ہم سال4 201 ء میں جرائم کے واقعات کا جائزہ لیں تو ملک دہشت گردوں کے نشانے پر رہا۔ پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مشکوک افراد کو پکڑ کر دہشت گردوں اور ڈاکووٴں کو پکڑنے کا دعویٰ کرتی رہی جبکہ پولیس کی طرف سے پیش کئے گئے بیشتر فرضی مبینہ دہشت گرد، ڈاکو اور جرائم پیشہ افرادعدم ثبوت کی بنا پر عدالتوں سے رہا ہوتے رہے مگر پولیس اپنی روش سے ٹس سے مس نہ ہوئی۔

پولیس حکام آئے روزپریس کانفرنسوں اور میڈیا سے گفتگو میں دہشت گرد اور ڈاکو پکڑنے کے دعوے کرتے رہے مگر عملاً جرائم واقعات پر قابو نہ پایا جا سکا۔ سال 2014ء میں صوبہ پنجاب کے تھانوں میں مختلف جرائم کے 4 لاکھ 2 ہزار 38 مقدمات درج کئے گئے۔ رواں سال پولیس افسران کی ہدایت پر صوبے بھر کی پولیس نے جرائم کا گراف کم کرنے اور جعلی کارکردگی دکھانے کے لئے کم مقدمات کا اندراج کیا۔

پنجاب پولیس نے 5 ہزار 5 سو 38 افراد کے قتل کے مقدمات درج کئے۔ جائیداد، زمین ہتھیانے، فراڈ، دھوکہ دہی، جعلسازی سمیت دیگر واقعات کے 90 ہزار، 7 سو 78 مقدمات، متفرق جرائم کے 97 ہزار 86 مقدمات درج کئے گئے۔ جن میں 2 لاکھ 97 ہزار 6 سو 85 مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش کئے گئے۔ جن میں 40 ہزار4 سو 67 مقدمات زیر تفتیش،24 ہزار،9 سو،77 ان ٹریس، 28 ہزار 7 سو، 5 مقدمات تفتیش کے بعد خارج کر دئیے گئے۔

61 ہزار 9 سو 11 مجرمان کوعدالتوں سے ان کا جرم ثابت ہونے پر سزا ہوئی جبکہ 58 ہزار 8 سو 67 افراد کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں جرم ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا گیا۔ صوبے بھر میں ڈکیتی کے قتل 2156 مقدمات درج کئے گئے جن میں سے ایک ہزار 2 سو 35 مقدمات چالان ہوئے۔1 سو 55 مقدمات منسوخ ،319 ان ٹریس،4 سو 67 مقدمات زیر تفتیش، ہاوٴس رابری و راہزنی کے 18 ہزار 4 سو 57 مقدمات درج کئے گئے۔

جن میں8 ہزار 85 مقدمات چالان ہوئے، 5 سو 96 منسوخ، 4 ہزار 7 سو 34 ان ٹریس، 5 ہزار 75 مقدمات زیر تفتیش، نقب زنی کے 13 ہزار 60 مقدمات درج ہوئے۔ جن میں 5 ہزار 7 سو 78 مقدمات چالان، 1 ہزار 93 منسوخ، 3 ہزار 5 سو،47 ان ٹریس، چوری کے 1 ہزار 9 سو 89 مقدمات میں سے 9 سو 89 چالان، 3 سو 9 منسوخ، 3 سو 66 ان ٹریس، 3 سو 89 زیر تفتیش، موٹر سائیکل و کار چوری کے 19 ہزار، 6 سو، 92 مقدمات درج کئے گئے، 5 ہزار، 7 سو 86 چالان، 6 سو 78 منسوخ، 7 ہزار 7 سو 67 ان ٹریس، 5 ہزار 8 سو 77 زیر تفتیش، کار و موٹر سائیکل چھیننے کے 5 ہزار، 9 سو، 96 مقدمات درج کئے گئے جن میں2 ہزار 9 سو 66 چالان، 201 منسوخ، ایک ہزار 2 سو 22 ان ٹریس ،1 ہزار، 7 سو 79 زیر تفتیش، مویشی چوری کے 6 ہزار 4 سو 55 مقدمات درج کئے گئے۔

جن میں 4 ہزار 6 سو 65 چالان، 7 سو 67 منسوخ، 3 سو 78 ان ٹریس، 6 سو 56 زیر تفتیش، منشیات فروشی، قمار بازی، جوئے، شراب فروشی، شراب نوشی، قحبہ خانے سمیت دیگر متفرق جرائم کے 23 ہزار 5 سو 67 مقدمات درج کئے گئے ، 11 ہزار 9 سو 92 چالان، 4 ہزار 4 سو54 منسوخ ،3 ہزار 8 سو 67 ان ٹریس اور 2 ہزار 9 سو 67 زیر تفتیش ہیں۔ لوکل اور سپیشل لاء کے تحت 1 لاکھ 43 ہزار 5 سو 46 مقدمات درج کئے گئے، 1 لاکھ،21 ہزار 5 سو 56 چالان ، 3 سو 89 منسوخ، 48 ان ٹریس، 2 ہزار 8 سو 87 زیر تفتیش، متفرق جرائم کے 97 ہزار57 مقدمات درج کئے گئے جن میں 88 ہزار 4 سو67 چالان،4 سو 98 منسوخ ،64 ان ٹریس جبکہ 6 ہزار،9 سو 67 زیر تفتیش مقدمات صوبے بھر میں ہیں۔

یہ واقعات ہیں جن کے مقدمات درج ہوئے جبکہ پولیس کے جانب سے مقدمات درج نہ کرنے کی شکایات میں بھی بہت اضافہ ہو ا ہے۔ سال 2014ء میں درج ہونے والے مقدمات سے پولیس کی کارکردگی اور بلند و بانگ دعووٴں کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں سال 2014ء کے دوران قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتوں سمیت سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں سال 2014 ء میں دیرینہ عداوتوں‘ لڑائی جھگڑوں‘ اراضی کے تنازعات‘ گھریلو ناچاقیوں‘ غیرت اور دیگر واقعات میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد 519 ہے جبکہ دو یا دو سے زیادہ افراد کے قتلوں کے لرزہ خیز واقعات بھی رونما ہوئے۔ لاہور پولیس کی طرف سے سال 2014ء میں قتل کے 519 مقدمات، ٹارگٹ کلنگ کے 2، اقدام قتل کے 680، اغواء برائے تاوان کے 24، خواتین کے اغواء کے 1 ہزار 6 سو 70، کمسن بچوں کے اغوا کے 206، خواتین سے زیادتی کے 38، بچوں سے زیادتی کے 217، بھتہ خوری کے 148، بم دھماکے کا 1، پولیس مقابلے کے 53، زہریلی شراب پینے سے ہلاکت کا 1، ڈکیتی کے 104، بسوں کوچوں میں لوٹ مار 1، بنک ڈکیتی کے 2، سٹریٹ کرائم کے 2842، کاریں چھیننے کے 47، موٹر سائیکل چھیننے کے 565، موبائل چھیننے کے 224، خواتین سے پرس چھیننے کے 379، چوری کے 6296، کار چوری کے 1095، موٹر سائیکل چوری کے 4809، سرکاری ملازمین پر حملوں کے 83، زمینوں پر قبضے کے 22 مقدمات مختلف تھانوں میں درج کئے گئے۔

یہ وہ واقعات ہیں جن کے مقدمات درج ہوئے جبکہ پولیس کی جانب سے مقدمات درج نہ کرنے کی شکایات عام پائی گئیں۔ لاہور میں ڈکیتی اور ڈکیتی مزاحمت پر ڈاکووٴں کی طرف سے شہریوں کو قتل کرنے کے واقعات بھی بڑھ گئے اور ڈاکووٴں نے سال 2014ء میں 37 افراد کو ڈکیتی اور مزاحمت پر فائرنگ کر کے موت کے گھات اتار دیا ہے۔ نوسر بازوں کے ہاتھوں نشہ آور شے کھلا کر شہریوں کو لوٹنے اور ہلاک کرنے کی واردتوں میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔

پولیس ملزمان کو پکڑنے میں ناکام رہی جبکہ سارا سال پولیس نوسر بازی میں ہلاکتوں کے واقعات کو ہارٹ اٹیک قرار دے کر لاش ورثاء کے حوالے یا مْردہ خانے جمع کرا دی جاتی ہے۔ داتا دربار‘ بھاٹی‘ گوالمنڈی‘ لاری اڈہ‘ ریلوے سٹیشن‘ لوہاری، بادامی باغ، راوی روڈ اور نواں کوٹ کے علاقے نوسر بازوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں بن گئے ہیں جبکہ کئی پولیس اہلکار بھی نوسر بازوں کی سر پرستی میں ملوث پائے گئے۔

پورا سال پولیس نے مقدمات کا اندراج کم کر کے حکام بالا کے سامنے کاغذی کارروائی پوری کر لی ہے مگر حقیقت میں عوام پولیس کی جانب سے داد رسی نہ ہونے پر مقدمات کے اندراج کے لئے اعلیٰ افسران کے دفاتر اور عدالتوں میں چکر لگاتے رہے جبکہ پولیس حسب روایت لاء اینڈ آرڈ کری ڈیوٹیوں کا بہانہ بنا کر شہریوں کو ڈاکووٴں اور چوروں کے حوالے کر کے بری الزمہ ہو گئی۔ غرض سال 2014ء میں سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ بڑھتے ہوئے جرائم کے برعکس پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ پولیس افسروں کے بلند بانگ دعووں کے برعکس 2014 ء میں عملاً جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jaraim Ki Sharah Main Khatarnak Izafa is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 December 2014 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.