مصافحہ ڈپلومیسی

دوست ہوتانہیں ہر ہاتھ ملانے والا مصافحہ میں پہل کرنے والے کو زیادہ معزز سمجھا جاتا ہے

ہفتہ 6 دسمبر 2014

Musafeha Diplomacy
خالد نجیب خان :
یہ صرف کہی سنی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ مصافحہ کرنے سے محبت بڑھتی ہے ۔ ایک حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ مصافحہ کیا کرو، اس سے محبت بڑھتی ہے۔ رسول کریم نے یہ حکم مسلمانوں کو دیا تھا مگر دنیا بھر میں تمام مہذب اقوام اس کو مانتی ہیں۔ عمومی ملاقات سے لے کر بہت ہی خصوصی ملاقات بلکہ بہت ہی خفیہ ملاقات تک میں مصافحہ کیا جاتا ہے۔

ایک سرجن صاحب اپنے مریض کے جسم میں بہت گہرے چرکے لگا کر اس کا علاج کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض اُن سے ناراض بھی ہو جا تے ہیں مگر ان کی یہ عادت بہت اچھی ہے کہ آپریشن کرنے سے پہلے وہ مریض سے مصافحہ ضرور کرتے ہیں۔آپریشن سے قبل مریض اگر اپنے ہوش میں نہ ہو بھی تو وہ پھر بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ پکڑکر مصافحہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کا خیال ہے کہ اس طرح کرنے سے دونوں کی بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ آپ گاڑی چلاتے ہوئے اگر کہیں جا رہے ہوں اورٹریفک پولیس آپ کوکسی بھی وجہ سے روک لے تو وارڈن یا جو بھی پولیس اہلکار ہو سب سے پہلے آکر مصافحہ کرتا ہے اور پھر آپ کو جرمانے کی پرچی عنایت کرتا ہے اور آپ اس کو بہت کچھ کہنے کے باوجود نہیں کہہ پاتے ۔ اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ آپ اس سے مصافحہ کر چکے ہوتے ہیں۔


آپ ٹیلی ویژن پر اور اخبارات میں مختلف سربراہان مملکت کی آپس میں مصافحہ کرتے ہوئے اُن کی بلائیں ٹل جاتی ہوں گی۔ ایسی کئی مثالیں بھی ہمارے پاس موجود ہیں کہ دہ حکمرانوں نے جتنا وقت مصافحہ کرنے اور اس کیلئے فوٹوسیشن میں گزارا اس سے کم وقت باہمی گفتگو میں گزارا بلکہ بعض سیاستدان تو محض مصافحہ کر کے تصاویر ہی بنواتے رہے۔ یوں اُن کی بلائیں یقینا دور ہو جاتی ہیں مگر ملکی مسائل تو جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔


ہمارے حکمران اپنے پورے لاوٴ لشکر کے ساتھ امریکی دورے پر جاتے ہیں اور امریکی صدر سے ملاقات کیلئے کوششیں کرتے ہیں۔ عموماََ ان کی یہ کوششیں برآ جاتی ہیں اور ملاقات کیلئے بیس پچیس منٹ کا وقت مل جاتا ہے۔ جب ملاقات ہوتی ہے تو پندوہ سے بیس منٹ فوٹو سیشن میں گزر جاتے ہیں اور باقی وقت پرچیاں پڑھنے میں گزر جاتاہے۔ ملاقات کیلئے اس سے زیادہ وقت عموماََ کسی کانفرنس وغیرہ کے موقع پر مل جاتا ہے جہاں خارجہ اَمور پر بات ہو جاتی ہے۔


جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آنے کے بعد فوری طور پر چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے ایک مرتبہ سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان کے سربراہ مملکت کو بھارت جانا تھا۔ چنانچہ وہ صدر مملکت بھی بن گئے اور کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موٴقف کو پیش کیا۔ اس موقع پر بھارتی حکمران بہت سرد مہری کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔بظاہر بہت کشیدگی تھی جنرل مشرف کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد اپنی نشست پر جاتے جاتے یکدم پلٹے اور بھارتی وزیراعظم واجپائی سے مصافحہ کرنے لگے۔

بھارتی وزیراعظم توا س کیلئے تیار نہیں تھے جس سے وہ بوکھلا گئے۔ لوگوں نے ٹیلی ویژن پر یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر وہ برف پگھلی اور مذاکرات کا دور شروع ہوا جو بعد میں کسی وجہ سے رُک گیا۔ گزشتہ دنوں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں جاری اٹھارہویں سارک کانفرنس میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سامنے آئی جب کانفرنس کے ایک سیشن میں ایسے لگا کہ پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں کے درمیان کوئی رابطہ یا مصافحہ نہیں ہو سکے گا اور ایسا ہی ہوا مگر اسی روز شام کو دونوں لیڈروں میں اچھا خاصا بلکہ کئی منٹ تک مصافحہ ہوتا رہا۔

اس کے نتائج تو یقینا کچھ دیر کے بعد ہی سامنے آئیں گئے مگر اس واقعہ نے باتیں کرنے والوں کو ایک اور موضوع دے دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف سے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو مختصر ملاقات ہوئی دونوں وزرائے اعظم نے کانفرنس کے آخری لمحات میں پر خوش مصافحہ کیا اور مختصر گفتگو کی۔ نواز شریف نے اپنی حکومت کے موقف کا اعادہ کرنے ہوئے کہا کہ بھارت تعلقات کی بہتری کی غرض سے مذاکرات میں پیشرفت کیلئے پہل کرے توپاکستان کوئی عار محسوس نہیں کریگا جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے نئی دہلی آمد پر پاکستانی ہم منصب سے تشکر کا اظہار کیا۔

تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سارس کانفرنس ہو یا کوئی اور بین الاقوامی کانفرنس ان سے پاکستان جیسے ممالک کوکچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کانفرنس بھی بھی معاشی تعاون کے دو سمجھوتوں پردستخط ہونا تھے مگر نہیں ہو سکے اوپر سے پاکستانی وزیراعظم کو اپنے لئے گاڑی بھی پاکستان سے منگوانا پڑی۔ گویا کھایا پیا کچھ نہیں صرف گلاس توڑنے کا بل ادا کرنا پڑا ہے۔


بات مصافحہ کی ہو رہی تھی سابق صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب کا مصافحہ بہت مشہور اور موٴثر ثابت ہوتا رہا ہے۔وہ محض ہاتھ ملا کر ہی بڑوں کو رام کر لیتے تھے۔ایم کیو ایم جوبات بات پران سے بگڑ جاتی تھی سب کچھ ہوجانے کے بعد وہ خود الطاف بھائی سے ملنے لندن چلے جاتے ، مصافحہ کرتے ایک دو چٹکلے چھوڑتے اور اپنا کام نکلوا کر واپس آجاتے ۔ کچھ دن حالات اچھے رہتے پر آہستہ آہستہ بگڑنے لگتی مکمل طور پر بگڑجاتی تو وہ اُسے بنانے کیلئے ایک مرتبہ پھر لندن چلے جاتے۔


زرداری صاحب کے مصافحہ میں واقعی بہت اثرتھا ۔ ایک مرتبہ وہ امریکی دورہ پر گئے اس وقت وہاں صدارتی الیکشن ہونے والے تھے انہیں نائب صدر کی امیدوار سارہ پالین سے بھی ملاقات کا موقع ملا اور وہ ان کے ساتھ کئی منٹ تک مصافحہ میں مصروف رہے۔ اس موقع پر وہاں موجود ان کے ایک دوست صحافی نے کہا کہ کیا ہاتھ ہی ملاتے رہیں گئے؟ انہوں نے فوراََ کہا:”کہیں تو گلے لگ جاوٴں “۔

یہ بات سارہ پالین کوبھی سمجھ آ گئی اور اس پر وہ بہت محظوظ ہوئیں مگر پاکستانی عوام اور علماء دین کو یہ بات سخت نا گوا گزری اس پران کے خلاف فتوے بھی جاری کئے گئے مگر آصف زرداری صاحب میں کچھ ایسی صلاحیت موجود ہے کہ فتوے ہوں یا قتل اور کرپشن کے الزامات ان کے سامنے آکر یوں غائب ہو جاتے ہیں جسے یہ کبھی تھے ہی نہیں۔
سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے مصافحے بھی لوگوں کو ابھی تک یاد ہیں۔

بطور وزیر خارجہ اُنہیں کئی سربراہان مملکت اور وزرائے خارجہ کے علاوہ مشہور شخصیات سے مصافحہ کرنے کا موقع ملا۔ ایک موقع پر اُنہیں بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا سے میٹنگ کرنا تھی۔ میٹنگ کیلئے سب لوگ جمع ہو چکے تھے۔ بس رسمی آغاز ہوناتھا۔ حنا ربانی نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا توان کے ہم منصب اس پر بوکھلا گئے۔ فوٹو گرافر نے ان کے یہ احساسات کیمرے کی آنکھ کے ذریعے محفوظ کر لئے تاہم بعد میں وہ خاصی دیر تک مصافحہ کرتے رہے۔


ہمارے ہاں کسی خاتون کا غیر مرر سے مصافحہ کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مگر ڈپلومیسی میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ ہاتھ ملانے والے ایک ہی جنس کے ہیں یا نہیں۔ اسلامی ممالک کے سربراہان یا اُن کی کسی خاتون اہل خانہ کا کسی غیر مسلم اور غیر محرم سے ہاتھ ملانے کو تو بہت ہی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے وہ سارا پالین سے آصف زرداری کا ہاتھ ملانا ہ وی ا حنا ربانی کاایس ایم کرشنا سے یا پھر ملکہ الزبتھ کا بحرین کے امیر کا اور امیر بحرین کا اہلیہ کا شہزادہ فلپ سے ہاتھ ملانا۔

سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا شمار ان سربراہان مملکت میں ہوتا ہے جنہوں نے سرکاری سطح پرکسی غیر محرم خاتون سے ہاتھ نہیں ملایا۔
بین الاقوامی معاملات کو حل کرنے سے فلسطینی رہنما یا سرعافات اور اسرائیل کے اضحاک رابن کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے کے موقع پر ہونے والا مصافحہ بھی لوگوں کو یاد ہے۔ اس مصافحہ کے موقع پر امریکی صدر بل کلنٹن بھی موجود تھے۔ صدر بل کلنٹن نے اس طرح کے اور بھی کئی مصافحے کرائے تھے جن پر وہ فریق پارٹیاں پشیمان ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Musafeha Diplomacy is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 December 2014 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.