ناگر محل

حویلی کی دیواریں،برآمدے،کمرے اور دروازے آج بھی دعوت نظارہ دیتے ہیں۔

بدھ 14 اکتوبر 2015

Nagar Mahal
سجاداظہر پیرزادہ:
ذہن کی وسعت نگاہ کی گہری اور دل کی دریادلی کے ساتھ تھکے ہارے سمندر کے سینے پر جیسے کوئی خوبصورت پرندہ آنکھیں موندیں تیررہاہو‘آرٹ،سنگ تراشی کے شاندار نمونے سے مزین کسی پرانی جگہ پردیوہیکل عمارت کودیکھ کر ایسا ہی کوئی خیال دیکھنے والی انسانی آنکھ میں اتر آتا ہے۔ماناکہ وسیع ذہن بے تعصب سوچ اور بے ریادل‘کسی بھی انسان میں یہ علامتیں اُس کوانسانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائر کرتی ہیں یہ مگر کون طے کرے گا کہ کسی بے جان عمارت کی خوبصورتی کن کن اوصاف کی متقاضی ہوتی ہے؟اگر ہم جنوبی پنجاب میں موجودتاریخی عمارتوں کانظارہ کریں تو وہاں اُن کے حسن وخوبی کا علم ہمیں پنجاب کی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی ضلع بہاولنگر کی تحصیل منچن آباد کے وسط میں35کمروں پر مشتمل 8کنال پر پھیلی85سالہ عظیم الشان تاریخی طور پر یہ عمارت کا نظارہ کرکے بھی ہوتاہے مشہور ہے کہا لیکن اس کواب سکھیرا ہاؤس‘ کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ناگرمحل اس لئے کہ ایک جاگیردار نارگرمل نے1930ء میں اس کو بنوایا تھا‘سکھیرا ہاؤس اس لئے کہ 47ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد متحدہ پنجاب کے ایم ایل اے (ممبرلچسلٹیواسمبلی) میاں باغ سکھیرا اس میں مقیم ہوگئے۔ایک انگریز کرنل منچن کی جانب سے آباد کئے گئے اس شہر منچن آباد میں ہم اس علاقے کے رہائشی اور ٹیچر اقبال خان بلوچ کے ہمراہ مین دروازے سے فوارے کے اردگرد کشادہ صحن میں پہنچے تو میاں باغ علی سکھیرا کے پوتے رحمان علی سکھیرانے ‘ناگر محل“ کی تاریخ کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ ”برٹش راج میں ناگر مل منچن آباد کے بہت بڑے جاگیردار تھے یہ ایک ہندوبنیاتھے۔

یہ1945ء میں آنرری مجسٹریٹ بھی بنے،بلاشبہ انہوں نے ایک لبرل اور سیکولرسوچ کے تحت اس حویلی کی تعمیر میں ہندو،مغلیہ اور انگریزی طرز تعمیر کے آرٹ کو استعمال کرایا‘لیکن ذہن کے وہ متعصب اور بنیاد پرست آدم زاد تھے45ء میں آنرری مجسٹریٹ بننے کے بعد انہوں نے حکم دے کر منچن آد میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگوادی اور مین چوک میں بت کھڑے کردیے۔

اس واقع کے بعد فرقہ واریت پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر ریاست بہاولپور کے نواب صادق نے ناگرمل کی گرفتاری کا حکم دیا،جس کے بعد یہ حویلی کو چھوڑ کراپنے پورے خاندان اور سازو سامان کے ساتھ ابوہرتحصیل فاصل کاضلع فیروز پور چلے گئے اور وہیں جاکے مقیم ہوگئے یہ علاقہ اب انڈیا میں آتا ہے۔ریاست بہاولپور نے اس حویلی کواپنے قبضے میں لے لیا اور دوسال یہ ریاست کی تحویل میں رہی۔

پھر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جب1947ء میں پاکستان تومتحدہ پنجاب کے ایم ایل ایے (ممبرلچسلیٹو اسمبلی) میاں باغ علی سکھیرا ایک لاکھ قافلے کے ساتھ منچن آبادآگئے ،یہ قافلہ ہارون آباد،چشتیاں،حویلی لکھا،اوکاڑہ میں جاکربس گیا‘اور متحدہ پنجاب کے پارلیمانی سیکرٹری محکمہ ایری کیشن میاں باغ علی سکھیرا اس حویلی میں آکے مقیم ہوگئے۔

میاں باغ علی سکھیرا کے دوسرے پوتے شاہ زیب علی سکھیرا سے جب اس حویلی کی ملکیت کے بارے میں سوال کیا گیا توا نہوں نے بتایا کہ میاں باغ علی سکھیرا نے ریاست بہاولپور کے سیکرٹری بحالیات سینڈرل مون سے جوڈی سی ملتان بھی رہے‘حکومتی خزانے میں پیسے جمع کراکراس حویلی کواپنے نام منتقل کرالیا۔میاں باغ علی سکھیرا کے جانشین میاں دلشاد علی سکھیرا اور میاں مقصودعلی سکھیرا نے اب اس حویلی کانظم ونسق سنبھالاہوا ہے ۔

اس کے بعد سے اب تک سکھیرا فیملی اس میں رہائش پذیر ہے۔
صحن سے سنگ احمر سے بنی آٹھ سیڑھیاں اوپر چڑھ کر حویلی کے اندرون خانہ دروازے پر اگر آپ کی نگاہ پتھر پر کنندہ حروف پرپڑجائے تو پھر3,2منٹ سے پہلے آپ اسے واپس پھیر نہیں پائیں گے۔دروازے کے دائیں اور بائیں طرف مسند بنی ہے۔جس کے اوپر ہندی رسم الخط سے ادب تخلیق کیا گیا ہواہے‘حیرت ہے جوبڑے شاندارطریقے سے85سال گزرنے کے باوجود آج بھی اُسی طر ح لکھا نظرآتا ہے۔

اندازے سے پتہ تو چل رہا تھا کہ اس میں ضرور انسان اور قدرت کے درمیان لطیف تعلق کااحساس موجود ہوگا اس علم کوجاننے میں مگر دلچسپی پیدا ہوئی اور ہم نے اُسی وقت دہلی میں مقیم اپنے ایک عزیز سے اردوزبان میں اس کامطلب پوچھ لیا انہوں نے بتایا کہ دائیں طرف لکھا ہواہے”رادھے شیام اوم رادھے شیام“ اور بائیں طرف لکھا ہوا ہے”سیتارام اوم سیتارام ․․․حویلی میں رہائش پذیر افراد اور مقامی رہائشی سہیل کاشف ملک ،جہانزیب ملک ،نعمان اس کامطلب پتہ چلنے پر بہت خوش ہورہے تھے کہ”نوائے وقت “ کی وجہ سے68سال بعد ہمیں اس کامعنی سمجھ میں آیاہے۔


سنسکرت ڈرامے کی طرح جوسٹیج کے لئے لکھے جاتے تھے مختلف طرح کی ان میں ہدایات دی جاتی تھیں یہاں تک کہ دیکھنے والوں کے متعلق بھی ہدایات دی جاتی تھیں کہ دیکھنا کس انداز سے بالکل اُسی طرح مقامی رہائشی شکیل عباسی بھی ہمیں ہدایات دے رہے تھے کہ اس انداز سے دیکھیں،اس انداز سے دیکھیں،واقعی اس حویلی کی دیواروں یادروازوں پر اس حویلی کے کمروں یابرآمدوں پر ‘اگر آپ کامن اٹک جائے اور مطالعے کے انداز میں جاننے اور دیکھنے کاشوق خود پر طاری کرلیا جائے تو پھر کبھی بھی آپ سیدھے کھڑے ہوکر سامنے بنی جالیوں پر کنندہ مجسموں کامطلب نہیں جان پائیں گے‘ آپ کو لگے گا کہ دائیں طرف تھوڑا جھک کرترچھی نگاہ ڈال کر دیکھنے سے مزہ آرہا ہے‘کبھی آپ کو اس کی چھت پر کنندہ تصویر نگاری کو دیکھنے کیلئے تھوڑا پیچھے مڑکر سراٹھا کردیکھنے میں لطف آئے گا۔


بھلے ہی آپ دن کے وقت اس عظیم الشان حویلی میں داخل ہوئے ہوں‘جس کو دیکھنے کیلئے یہاں مولانا عبدالستار نیازی، مولاناشاہ احمدنورانی،نواب زادہ نصراللہ خان،ائر مارشل اصغر خان،سابق گورنرمخدوم احمد محمود کے والد مخدوم حسن محمود، سابق وزراعظم ملک معراج خالد، قومی اسمبلی کے سابق سپیکر مخدوم فخر امام بھی یہاں آچکے ہیں،تپتی دوپہر میں مگر ہنگامہ خیز گھڑی کت وقت بھی‘حویلی میں سے آنے ولی پرانے وقتوں کی آوازیں محسوس کرکے پہلی نظر میں آپ کویوں لگے گا کہ جیسے ابھرتے سورج کی پہلی ٹھنڈی کرن کے سامنے شہد کی مکھیوں کاجھرمٹ فضاء کومعطر کررہا ہو۔

مغلیہ طرز سے تیار ہوئے مین دروازے پہ پہنچنے پر آپ محسوس کریں گے کہ کسی نے واقعی جان مارمار کے اس بے جان لکڑی میں اس قدرجان بھردی ہے کہ آج تک اس کی ہردلعزیزی میں کمی آئی اور نہ ہی اثرپذیری میں اس کی ذرا ساکوئی فرق․․مقامی صحافی حاجی اقبال ،شیخ محمد گلریز شہزاد، منورخان، شبیر تگڑمگر حویلی کی دیکھ بھال کامناسب انتظام نہ ہونے پر شکوہ کناں بھی نظر آئے․․دروازے کے سامنے موجود فوارہ اب بھی سیاحوں کواپنی طرف کھینچتا ہے اس فوارے میں کونسی کشش ایسی ہے کہ پتہ چلے پرانی چیزیں سدا بہارنہ ہونے کاپیغام دیتی ہیں؟ اس فوارہ کے پائپ ٹوٹ چکے ،پانی کے لئے مختص جگہ پرکائی جم چکی‘طویل المدت ہونے کے باعث یہ پانی پھوار کوآسمان کی طرف اچھال کے ماحول کودلکش بنانے جیسے اپنے خوبصورت کام سے بھی عاجز آچکا ہے اب اس سے پانی کی نہیں ایک اور آوازآتی ہے،یہ فوراہ پیغام دے رہا تھا تم لوگ جو مجھے دیکھنے آتے ہو تمہارے دل سلامت ہیں تمہاری جان سلامت ہے میں چھوٹی سی سطح پر پانی برساکر تھوڑے سے لوگوں کو خوش نہیں کررہا تو کیا ہوا‘تم لوگ تو آپس میں بلاامتیاز رنگ ونسل اور مذہب وملت آپس میں پیار ،محبت ،رواداری وبرداشت کاپر چار کرکے اللہ کی دھرتی کے ماحول کودلکش وپرامن بناسکتے ہو!!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Nagar Mahal is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 October 2015 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.