اغواء برائے رنجش؟

انسانی سوچ کا محور انسان کے اردگرد گھومتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی اچھی سوچ اسے کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے جبکہ منفی سوچ کا مالک اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا کر وقتی طور پر کامیاب تو و سکتا ہے لیکن بعد ازاں پچھتاوہ اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ایسے انتقام پسند لوگ بھی دیکھے گے ہیں جو کھانا کھانا تو بھو ل جاتے ہیں لیکن انتقام لینا نہیں بھولتے

بدھ 24 اگست 2016

Agwa Baraye Ranjish
حاجی میاں محمد طارق:
انسانی سوچ کا محور انسان کے اردگرد گھومتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی اچھی سوچ اسے کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے جبکہ منفی سوچ کا مالک اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا کر وقتی طور پر کامیاب تو و سکتا ہے لیکن بعد ازاں پچھتاوہ اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ایسے انتقام پسند لوگ بھی دیکھے گے ہیں جو کھانا کھانا تو بھو ل جاتے ہیں لیکن انتقام لینا نہیں بھولتے اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا کیا سوچ رکھتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں گزشتہ چھ ماہ سے اغواء کی خبریں پڑھ اور سن کر کوئی بھی درد دل رکھنے والا انسان خاموش نہیں رہ سکتا اور کچھ نہیں تو اغواء کاروں کو بد دعائیں ضرور دیتا ہے۔

انسان کسی کو بد دعا نہیں دتیا۔

(جاری ہے)

دعا اور بددعا خود بخود دل سے نکلتی ہے اچھائی کرنے والے یا احسان کرنے والے کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔ ہمیشہ اس کے لیے دل سے دُعا نکلتی ہے اور کسی کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی صورت میں بددعا ہی نکلتی ہے۔ جبکہ بُرائی سے دینے پر انسان کو در گزر کرنے کو کہا گیا ہے جو حکم ربی بھی ہے اور احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

حالیہ دور میں جو اغواء کا سلسلہ شروع ہو ا ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی خاندانی رنجش کو انتقام کی بھینٹ چڑھانے کے لیے اپنے بچے کو کہیں غائب کر کے مخالف پر جھوٹا مقدمہ درج کروانے کی کو شش کرتے ہیں جبکہ ٹی وی کے مختلف چینلز پر ایسے مناظر بھی دیکھے گے کہ بے قصور لوگوں پر تشدد کیا گیا یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں اغواء کی وارداتیں بیان کی گئیں لیکن اتنی زیادہ نہیں ہوئیں جتنا چینلز پر شور مچایا جارہا ہے۔

حال ہی میں سبزہ زار لاہور کے علاقہ میں دو فراقین کے درمیان کسی پرانی رنجش کی بنا پر ایک فریق نے دوسرے فریق کے خلاف اپنے بیٹے کے اغواء کا جھوٹا کیس درج کروایا اور اس طرح واویلہ کیا کہ جیسے س مچ اس کا بچہ اغوا ہو گیا ہو۔ پولیس کو فکر لاحق ہوئی پولیس نے دونوں پارٹیوں کو تھانہ بلوایا لیکن مسئلہ حل نہ ہوا دونوں اپنے بیان پر اٹل تھے۔ وہ پولیس ہی کیاجو چہرے سے یہ نہ پڑھ لے کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔

چنانچہ پولیس والوں نے رات کے اندھیرے میں مدعی کے گھر چھاپا مارا اور جس نے اغواء کی رپٹ لکھوائی تھی اس سے اپنی زبان میں تفتیش کی پھر کیا تھا چند لمحوں میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا اور انہوں نے یہ اقرار بھی کر لیا کہ وہ اپنے بیٹے کو رات کے اندھیرے میں شیخوپورہ چھوڑ کر آئے تھے۔ فیصل آباد میں بھی ایک واقعہ پیش آیا کہ تیرہ سالہ جواد گھر سے ٹیوشن پڑھنے گیا اور واپس نہ آیا گھر والوں نے آوٴ دیکھا نہ تاوٴ ارد گرد سے لوگ اکھٹے کئے اور پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے لگے بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ جواد والدین کے درمیان روزانہ کے جھگڑے سے تنگ آ کر گھر چھوڑ گیا۔

بعد ازاں جو اد داتا صاحب لاہو ر سے ملا ۔ اسی طرح کے اور بھی کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ہر ذمہ داری حکومت پرعائد نہیں ہوتی کچھ ذمہ داریاں والدین کی بھی ہیں والدین کو اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور اچھے شہری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔
بچوں کے اغواء کا سلسلہ چل نکلا ہے گو کہ تمام بچے بھی واپس آگے ہیں جبکہ ناراض بچے بھی اپنے اپنے گھروں کو اپس پہنچ چکے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی رنجش رکھنے والے حضرات اغواء کا سہارا لے کر مخالفین سے انتقام سے اجتناب کریں ورنہ لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ بچے سب کے برابر ہیں انہیں تختہ مشق بنانا اخلاقی لحاظ سے بھی ناپسند یدہ عمل اور مذہبی طور پر بھی اس کی ممانعت کی گئی ہے اس لیے ایسا گھٹیا حربہ استعمال نہ کیا جائے ۔ حکومت اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر جب کسی منطعقی انجام تک پہنچی تو اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اغوا کی وارداتوں کے پیچھے ایک مافیا کام کر رہا ہے جو اپنی انتقامی حسن کی تسکین کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑوں تک کو بخشنے سے باز نہیں رہتا ۔ اب جبکہ حکومت جان چکی ہے نہ صرف اغوا کی وارداتوں کا تسلسل بھی ٹوٹ رہا ہے بلکہ انتقام مافیا کے گرد گھیرا بھی تنگ ہو رہا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Agwa Baraye Ranjish is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 August 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.