برسات میں ڈوبا کراچی

گزشتہ دنوں جب موسمیات کے دعوؤں پرکراچی میں تیزبارش کااعلان ہواتونئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ متحرک ہوگئے جس کے بعد نالوں کی صفائی بھی ہوگئی،ان کے اچانک چھاپوں نے بلدیاتی اداروں کی نیندیں، اڑادیں اور اسی خوف میں بلدیاتی اداروں نے شہر میں پانی جمع نہیں ہونے دیا۔ مراد علی شاہ کے سڑکوں پر نکلنے کاعوام نے بھی خیر مقدم کیالیکن اس مرتبہ محکمہ موسمیات بھی سوتارہا

منگل 6 ستمبر 2016

Barsaat Main Doba karachi
محمد رضوان خان یوسف زئی :
گزشتہ دنوں جب موسمیات کے دعوؤں پرکراچی میں تیزبارش کااعلان ہواتونئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ متحرک ہوگئے جس کے بعد نالوں کی صفائی بھی ہوگئی،ان کے اچانک چھاپوں نے بلدیاتی اداروں کی نیندیں، اڑادیں اور اسی خوف میں بلدیاتی اداروں نے شہر میں پانی جمع نہیں ہونے دیا۔ مراد علی شاہ کے سڑکوں پر نکلنے کاعوام نے بھی خیر مقدم کیالیکن اس مرتبہ محکمہ موسمیات بھی سوتارہا اور تیزوتندبارش نے تین دنوں سے شہرکی حالت دگرگوں کردی۔

ہرسڑک تالاب کا منظر پیش کررہی تھی۔شاہراہ فیصل جسے انتہائی محفوظ تصور کیاجاتا ہے وہ قائدآباد سے ناتھا خان تک دریاکا منظر پیش کررہی تھی۔ بدترین ٹریفک جام بھی دیکھنے میں آیا، کسی گاڑی کاپٹرول ختم ہوا تو کسی کی اسی این جی یہی حال دوسری سڑکوں کا بھی تھا۔

(جاری ہے)

حسب روایت کے الیکٹرک نے شہر میں بجلی بند کردی لیکن پھر بھی پانچ شہری ہلاک ہوگئے۔

اپنی بساط کے مطابق ہرادارے نے کام کیا لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی نے سب کازیادہ بوجھ سنبھالا۔ میئرکراچی بننے والے وسیم اختر اور ڈپٹی میئرارشد وہرہ پرپڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں اور کراچی کے مسائل کے حل کیلئے وسیم اختر کی رہائی ضروری ہے، اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ کو اسی اسپرٹ کامظاہرہ کرناچاہئے جس کے تحت وہ خودترقی اور صفائی کے لئے متحرک ہیں۔

انہیں وسیم اختر کو میئر کراچی کی حیثیت سے کام کرنے دینے اور اختیارات دینے کی روایت قائم کرنے کی ضروریات ہے جو نفرت وتعصب سے پاک ہو۔ کے ایم سی کو وہ تمام محکمے بھی واپس دینے کی ضرورت ہے جو اس کے پا س1979 میں تھے جس میں آکٹرائے اور سی ڈیوز بھی شامل ہیں۔ آکٹرائے اگر ممکن نہیں تو اس کا شیئر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح میونسپل یوٹیلٹی اور ٹریڈلائسنس کے شعبے بھی کے ایم سی کے پاس ہونے چاہئیں۔

میونسپل یوٹیلٹی کاشعبہ جو اس وقت کے ایم سی پر بوجھ ہے، اسے نئی حکمت عملی کے تحت آرگنائز کیاجانا چاہیے۔ میونسپل سروس محکمہ ڈی سنیٹرلائزکرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے جس اسپرٹ کا مظاہرہ بارش میں کیااور مستقل کاوشوں میں مصروف ہیں، انہیں منتخب نمائندوں کے ہاتھ کراچی ہی میں نہیں تمام اداروں میں مضبوط کرنے چاہئیں۔

کراچی میگاپولیٹن سٹی ہے اسے اس کے اسٹیٹس کے مطابق تمام اختیارات ملنے چاہئیں۔ سالڈویسٹ کامحکمہ واپس کے ایم سی کے حوالے کیاجائے۔ سوشل ویلفیئر بھی کے ایم سی کا اپنا محکمہ تھا۔ اسی طرح کلچر اور سوشل ویلفیئر کے محکمے بھی واپس کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ہیلی کاپٹر سے شاہراہ فیصل کادورہ کیا لیکن اس مرتبہ وہ سڑکوں پر اس طرح نہیں نکلے جس کی وجہ سے ادارے بھی متحرک نہیں رہے نتیجہ یہ نکلا کہ تمام سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی تھیں۔

ایڈمنسٹریٹرز نے اس لئے بھی سستی کی کہ انہیں رخصت ہوجاناتھا لیکن شہر کی خدمت منتخب نمائندے ہی کرسکتے ہیں خواہ وہ وزیراعلیٰ ہوں یامیئر کراچی۔ مراد علی شاہ کو شہری اداروں کو مکمل بااختیار بنانا چاہیے۔ کے یم سی کو پانچ سو ارب کی اسپیشل گرانٹ وفاق اور صوبہ سے دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کے ایم سی کی 50 کروڑ کی گرانٹ بھی واپس بحال کرنے کی ضرورت ہے، میئر کی سیاسی وابستگی کو جواز بناکر شہر کو سزا نہ دی جائے بلکہ وزیراعلیٰ کو رول ماڈل بن کرکراچی کو اس کاجائز حق دینا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Barsaat Main Doba karachi is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 September 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.