فیصل آباد… پولیس تبادلوں میں سیاسی مداخلت کا الزام

سی پی او ڈاکٹر سہیل حبیب تاجک کو ڈی آئی جی بنا کر ان کا فیصل آباد سے تبادلہ کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ شیخوپورہ کے ڈی پی او افضال احمد کوثر کو فیصل آباد پولیس کی کمان سونپ دی گئی ہے۔

ہفتہ 23 مئی 2015

Faisalabad Police Tabadloon Main Siasi Mudakhalat Ka Ilzaam
احمد کمال نظامی:
سابق وفاقی وزیرداخلہ میاں زاہد سرفراز نے فیصل آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اس شہر کے ڈان بن چکے ہیں اور ملزمان کی پشت پناہی کر تے ہیں۔ فیصل آباد میں حال ہی میں مختلف واقعات میں قتل ہونے والے پانچ افراد کے پیچھے بھی مبینہ طور پر ان ہی کا ہاتھ ہے جس میں تحریک انصاف کا قتل ہونے والا کارکن حق نواز بھی شامل ہے۔

زاہد سرفراز نے الزام عائد کیا کہ فیصل آباد کے سی پی او ڈاکٹر سہیل حبیب تاجک نے یہ باتیں خود بتائی ہیں مگر افسوس کہ سی پی او رانا ثناء اللہ کے خلاف مقدمہ بھی درج نہیں کیا جا سکا۔ ڈاکٹر سہیل حبیب تاجک غالباً تیسرے یا چوتھے سی پی او ہیں جن کے تبادلے پر ایسے الزامات سامنے آ رہے ہیں کہ سیاسی داو پر انہیں تبدیل کروادیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کی طرف سے بھی متواتر حکومت کے وزراء اور اعلیٰ پولیس افسران کے تبادلوں پر ایسے ہی الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔

اس پر ضرورت اس امر کی ہے کہ رانا ثناء اللہ خاں ازخود اس الزام پر اپنا موقف سامنے لائیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے اور ضلع میں امن عامہ کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لئے اپنا بھرپور اور کلیدی کردار ادا کریں۔ سی پی او ڈاکٹر سہیل حبیب تاجک کو ڈی آئی جی بنا کر ان کا فیصل آباد سے تبادلہ کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ شیخوپورہ کے ڈی پی او افضال احمد کوثر کو فیصل آباد پولیس کی کمان سونپ دی گئی ہے۔

پولیس افسروں اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے تبادلے روٹین کی بات ہوتی ہے لیکن جب پولیس جیسے محکمہ کے کسی اعلیٰ افسر کے تبادلے کے پس پردہ ریشہ دوانیوں کی سیاسی کہانیاں گردش کر رہی ہوں تو پھر اعلیٰ پولیس افسر کے تبادلہ کو روٹین کا تبادلہ نہیں کہا جائے گا۔اور ایسے تبادلوں سے یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ نوکری کرنی ہے تو درباری بن کر رہو ورنہ چین نہ پاوٴگے۔

ڈاکٹر سہیل حبیب تاجک گو ڈی آئی جی کے عہدہ پر ترقی دی گئی ہے لیکن ذرائع یہی کہتے ہیں کہ وہ مینڈکوں کی لڑائی میں مارے گئے کیونکہ انہوں نے اپنے محکمہ کی عوام میں عزت و توقیر بڑھانے کی کوشش کی اور محکمہ پولیس کی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اجارہ دار پولیس افسروں اور اہلکاروں کے تبادلے کرنے شروع کر دیئے اور ان تبادلوں کی زد میں وہ پولیس والے بھی آئے جو حکمران مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی اور بااثر سیاسی افراد کی ”فورس“ کا درجہ رکھتے تھے اور برسوں سے اپنی من پسند جگہوں یعنی تھانوں میں تعینات تھے۔

اس کے ساتھ ہی فیصل آباد میں علی اصغر بھولا گجر کا قتل کیس بھی وجہ تنازعہ بنا کیونکہ علی اصغر بھولا گجر قتل کیس میں ملوث علی کمانڈو کی گرفتاری اور اس کے انکشافات نے سیاسی حلقوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور ایک پولیس انسپکٹر رانا فرخ حمید کا ملک سے فرار ہونا اور اور اس متعلق لرزا خیز انکشافات کا منظرعام پر آنا بھی ایک المیہ اور لمحہ فکریہ کا درجہ رکھتا ہے۔

پولیس انسپکٹر رانا فرخ حمید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کرایہ کے قاتلوں کا ایک گینگ بنایا ہوا تھا اور یہ گینگ کروڑوں اور لاکھوں روپے کے معاوضہ پر لوگوں کو قتل کرتا اور پھر ”سرکاری کمین گاہ“ میں روپوش ہو جاتا۔ علی اصغر بھولا گجر کا قتل بھی اسی کلچر کا شاخسانہ ہے اور اس کی بازگشت وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے دورہ فیصل آباد کے موقع پر سنی گئی جب وزیراعلیٰ سے ارکان اسمبلی اور وفاقی وزیرمملکت عابد شیرعلی نے یہ مطالبہ کیا کہ ملک فرار ہونے والے پولیس انسپکٹر رانا فرخ حمید کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرایا جائے کیونکہ رانا فرخ حمید نے ہمیں قتل کرانے کی منصوبہ بندی کی لیکن علی کمانڈو نامی شخص کی گرفتاری سے یہ ٹارگٹ مکمل نہ ہو سکا۔

خبر ہے کہ علی کمانڈو کی گرفتاری بھی اس وقت ہوئی جب وہ بھی ملک سے فرار ہونے کے لئے دبئی جانے والی پرواز میں سوار ہونے والا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ قاتل اور جرائم پیشہ افراد فرار ہو کر قبائلی علاقوں میں روپوش ہو جاتے تھے اور سیاسی عناصر اپنی نئی منصوبہ بندی لندن کی فضاوٴں میں بیٹھ کر کرتے تھے بہت سے لندن والوں کی کہانیاں اب بھی سنائی دیتی ہیں لیکن اب بڑے بڑے سنگین جرائم میں ملوث افراد دبئی کی راہ لیتے ہیں۔


نئے سی سی پی او افضال احمد کوثر نے اپنے عہدہ کا چارج سنبھال لیا ہے اور فیصل آباد میں قدم رکھتے ہی ان کا استقبال نہر رکھ برانچ سے بی ایس سی کے طالب علم کاشف نوید کی برآمد ہونے والی لاش نے کیا ہے۔ جسے پانچ کروڑ کے تاوان کے لئے اغوا کیا گیا اور عدم ادائیگی تاوان اس کی موت کا سبب بنی۔ لہٰذا نئے سی پی او فیصل آباد افضال احمد کوثر کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں فیصل آباد میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ارکان اسمبلی کی ہر انتظامی منصوبہ بندی میں مداخلت کے ساتھ بعض پولیس انسپکٹروں کی اپنی ”ریاست“ کا چیلنج بھی موجود ہے۔

فیصل آباد کے سی سی پی او کا عہدہ افضا ل احمد کوثر کے لئے ایک آزمائش بھی ہے، امتحان بھی ہے اور چیلنج بھی ہے۔ ہماری تو خواہش اور دعا یہی ہے کہ سی پی او افضال احمد کوثر سرخرو ہوں اور ان کے اقدامات ہی ثابت کریں گے کہ وہ مردمیدان میں گفتار کے غازی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے سہالہ پولیس ٹریننگ کالج کی پاسنگ آوٴٹ پریڈ کے موقع پر اپنے خطاب میں جہاں پولیس کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کرتے ہوئے دادتحسین پیش کی ہے وہاں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ تھانوں اور کچہریوں میں انصاف بک رہا ہے اور جب تک تھانوں کچہری میں انصاف کا نیلام ہوتا رہے گا اور یہ ظلم ہوتا رہے گا۔

اس وقت تک نہ دہشت گردی ختم ہو گی نہ امن قائم ہو گا اور نہ غریب کی آواز سنی جائے گی۔ میاں شہبازشریف نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کہ ”کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا“ کی مثال دے کے بلا شبہ ہر شعبہ میں انصاف کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حکومت اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل کا رخ پولیس کی طرف موڑ رہی ہے۔

پولیس کو بھی نتائج دینے ہوں گے اور میرٹ کو قائم کرنا ہو گا۔ میاں شہبازشریف نے کہا کہ پنجاب بھر میں پولیس اور تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے، ڈسپلن سمیت دیگر امور میں تبدیلی لانے کے لئے 1998ء میں جس سفر کا آغاز کیا تھا آج اسے مزید بڑھتا دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ وزیراعلیٰ بجا فرماتے ہیں کہ وزیراعظم، ججوں جرنیلوں اور بیوروکریٹ سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کو کرنا چاہیے رکاوٹ کیا ہے اور کیوں نہیں ہو رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Faisalabad Police Tabadloon Main Siasi Mudakhalat Ka Ilzaam is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 May 2015 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.