اگست 1947اور ہندو ذہنیت

تاریخ ہند کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سرزمین پر مسلم تمدن کے علاوہ تمام بیرونی تہذیبیں ہندی تہذیب میں جذب و بھسم ہوگئیں۔ مسلم تاجر ہوں کہ مبلغ، روحانی پیشوا ہوں یا فاتح ان کے حسن سلوک نے ایک متعصب اور ذات پات پرمبنی معاشرے کو نہایت متاثر کیا

منگل 16 اگست 2016

August 1947
عزیز ظفر آزاد:
تاریخ ہند کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سرزمین پر مسلم تمدن کے علاوہ تمام بیرونی تہذیبیں ہندی تہذیب میں جذب و بھسم ہوگئیں۔ مسلم تاجر ہوں کہ مبلغ، روحانی پیشوا ہوں یا فاتح ان کے حسن سلوک نے ایک متعصب اور ذات پات پرمبنی معاشرے کو نہایت متاثر کیا کیونکہ یہ معاشرہ بت پرستی ، باہمی آویزش، رزم آرائی، چھوت چھات اور تہذیب و تمدن کی بھیانک صورت حال کا شکار تھا جیسے کسی ہندوستانی کا دھرتی سے باہر جانا پاپ سمجھا جاتا تھا اسی طرح باہر سے آنے والے کو ملیچھ اور پلید تصور کیا جاتا تھا۔

یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ثقافتی تمدنی لسانی اور مذہب سمیت ہر شعبہ زندگی میں تضاد اورٹکراؤ پایا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم سے شروع ہونے والا سلسلہ مغلوں کے زوال تک قائم رہا۔

(جاری ہے)

اس دوران لاکھوں کی تعداد میں ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے کیونکہ مشائخ عظام اور علماء کرام نے جذبہ ایمانی سے ہندوستان کے طول و عرض میں محبت، احسان اور اخلاص کے بے مثال چراغ روشن کئے جس سے ہندو معاشرہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

اس لئے تقسیم ہند کے بھارت کے پہلے صدر راجندر پرشاد اپنی تصنیف میں اعتراف کرتے ہیں۔"مسلم فاتحین کا طرز عمل مجموعی طور پر بڑی ہی رواداری کا آئینہ دار تھا" مگر دوسری جانب ہندو ذہنیت ملاحظہ کیجئے۔ سنگٹھن، شدھی جیسی نفرت بھری تحریکیں چلا رہے تھے۔ قرار داد لاہور 23مارچ1940 کے رد عمل میں مہاتماگاندھی چلا اٹھے " مسلم لیگ کی جانب سے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے میرے دل کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔

میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کروں گا کہ اگر میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اس دروغ بیانی سے متنبہ نہ کروں جس کا اس نازک وقت میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے " مہاتما گاندھی کے متعلق حضرت قائداعظم نے ایم ایس ایف کے اجلاس میں بتایا کہ " مشکل یہ ہے کہ گاندھی جی کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو وہ زبان سے کہتے ہیں اور جو ان کا درحقیقت مقصد ہوتا اسے کبھی زبان پر نہیں لاتے " ایک اور موقع پر حضرت قائد نے فرمایا " ہمارا جس حریف سے پالا پڑا ہے وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے جبکہ ان کے ( گاندھی )یہاں مفید مطلب نہیں ہوتا۔

وہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ کسی کے نمائندے نہیں۔ وہ محض انفرادی حیثیت سے گفتگو کر رہے ہیں اور کبھی سارے ہندوستان کے نمائندہ بن جاتے ہیں۔جب اور ہربوں سے کام نہیں چلتا تو مرن بھرت رکھتے ہیں۔ "
یہ رویہ صرف گاندھی جی کا ہی نہیں بلکہ ہندو مت کاخمیرہی تعصب سے گوندھاہوا ہے۔ ایک موقع پر جسٹس مہر چند مہاجن یہ اعتراف جرم کرتے ہیں " ہم نے بڑی رازداری سے ایک اونچی سطح کی میٹنگ میں پلان بنایا کہ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے جس میں جنرل چودھری، مہاراجہ پٹیالہ، بلدیو سنگھ اور سردار پٹیل شامل تھے مگر حکومت نے فوری اتفاق سے گریز کیا۔

اسی طرح سیواجی نے راجا جے سنگھ کے نام ایک مراسلے میں تحریر کیا " میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ افسوس صد افسوس یہ تلوار مجھے ایک ہی مہم کے لئے نکالنی پڑی۔ اسے مسلمانوں کے سرپر بجلی بن کر گرنا چاہئے تھا۔ دکن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سارے مسلمان ایک خونی سیلاب میں بہہ جائیں گے اور مسلمان کا نشان بھی باقی نہ رہے گا۔" مہاشہ پرتاب سنگھ نے سکھر میں تقریر کرتے ہوئے کہا ”گائے ماتا کے گلے پر چھری پھیرنے والوں کے لئے ہمارے دل میں رحم کا جذبہ نہیں ہونا چاہیے۔

بھیشم کے سپوتو، ارجن کے دلارو اگر تم ایک گائے کی خاطر کراچی سے مکہ تک تمام مسلمانوں کو ختم کر دو تو بھی تھوڑا ہے“۔
14اگست 1947 ء تمام محکوم اقوام خصوصا امت مسلمہ کیلئے فتح و کامرانی کے آغاز کا دن ہے۔جس کے بعد درجنوں محکوم اقوام آزادی کی نعمت سے فیض یاب ہوئیں۔ کسی حریت پسند قوم کا آزادی حاصل کرنا اس صورت میں نہایت دشوار ہو جاتا ہے جب ایک طرف بیرونی حکمران مسلط ہوں اور دوسری جانب خطے میں اکثریت رکھنے والی قوم بھی بغض اور دشمنی رکھتی ہو۔

ہماری عظیم قیادت نے اپنی فراصت اور تدبر کے ذریعے تمام مراحل کو خو ش اسلوبی سے طے کیا۔ اس عظیم جدوجہد کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست قیام پذیر ہوئی۔ کفر کے غلبہ میں اس کے وجود کی نمود اسلام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا لہذا روز اول سے ہی اندرونی و بیرونی سازشوں کے جال بچھنے شروع ہوگئے۔ اس کے اساسی نظریے کو دھندلانے اور قیادت کے کردار پر انگلی اٹھانے کا عمل وطن دشمنوں کا شیوا بن گیا۔

حضرت قائد کی رحلت کے بعد ان کی تمناؤں اور آرزؤں کے برعکس ایسے بھیانک حالات کی جانب ملک کو دھکیلا گیا۔ قائد کے ساتھیوں اور تحریکی کارکنوں کو نظام مملکت سے دور کر کے ایسا راج لے آئے جو نہ جمہوری تھا نہ فوجی۔وطن عزیز جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور جرنیلوں کے خانوادوں کی افزائش کا کا رخانہ بن کر رہ گیا۔ وہی گروہ آج تک مملکت کی رگ و پا پر پنجے گاڑھے عوام الناس کا خون چوس رہے ہیں۔

آج ہم ایک قوم کی شکل میں دکھائی نہیں دیتے ۔ ہمارا کوئی قو می تشخص ہے نہ لباس نہ زبان یکساں نہ ہی دین کی پیروی میں یکجا ہیں بلکہ مسلکی، لسانی و صوبائی تعصبوں اورنفرتوں کا شکار ہیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے مشاہیر کے تصورات اور فرمودات کی جانب لوٹنا ہوگا تب ہی پاکستان جدید فلاحی اسلامی جمہوری ریاست بن سکے گا اور ہم 14اگست کو یوم آزادی کے طور پر منانے کے اہل ثابت ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

August 1947 is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.