دہشت گردی اور شعبہ تعلیم

یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو حکومت کی طرف سے اسلحہ فراہم کیا جائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے پولیس یا فوج کا انتظار نہ کرنا پڑے اور اساتذہ دہشت گردوں کو اس وقت تک کسی بڑی کارروائی سے روکے رکھیں جس سے جانی نقصان ہوسکتا ہے

پیر 8 فروری 2016

DehshaatGardi Or Shoba Taleem
جمشید چشتی:
دہشت گردی کے جس عفریت کا ہمیں اس وقت سامنا ہے، اس سے نمٹنے کے لئے ہمیں بہت غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں یہ تجویز دے چکا ہوں کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء و اساتذہ کو ابتدائی فوجی تربیت دی جائے۔ اسے نصاب میں شامل کیا جائے اور یہ ایک لازمی مضمون ہو ہماری ایجوکیشن کا، دوسرا قدم یہ ہے کہ تمام سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو حکومت کی طرف سے اسلحہ فراہم کیا جائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے پولیس یا فوج کا انتظار نہ کرنا پڑے اور اساتذہ دہشت گردوں کو اس وقت تک کسی بڑی کارروائی سے روکے رکھیں جس سے جانی نقصان ہوسکتا ہے۔


تیسرا اہم کام یہ ہے کہ جتنی رقم بجٹ میں تعلیم کے لئے رکھی جاتی ہے وہ اْونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔

(جاری ہے)

فی الحال ترقیاتی اور تعمیراتی(عمارتی) کام روک دیئے جائیں اور وہ کروڑوں، اربوں روپے تعلیم کے فروغ اور تعلیمی اداروں کی سکیورٹی پر صرف کئے جائیں کیونکہ اس طرح کے مخدوش حالات میں سیر گاہیں، ڈزنی لینڈ، پلازے اور لگڑری ٹرینیں اور بسیں چلانا اور شہروں کو خوبصورت بنانے کی باتیں کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کینسر کے مریض کو ” میک اپ“ کرکے صحت مند ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرنا، ہمارے معاشرے کو اس وقت دہشت گردی کے کینسر نے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے، ہم بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔

ہم آزادی سے تعلیمی ادارے نہیں چلاسکتے، ہم تعلیم کے فروغ کے لئے ایک قدم نہیں اٹھا سکتے تو پھر ہمیں اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی، ویسے بھی کسی ملک اور قوم کی ترقی کی بنیاد تعلیم ہے، جب تک قوم تعلیم یافتہ نہیں ہوگی ہمارے مسائل میں ذرہ برابر کمی نہیں آسکتی بلکہ معاملات روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے، ہماری معیشت بھی اس وقت داؤ پر لگی ہوئی ہے کیونکہ دہشت گردی کے خوف سے کوئی بیرونی سرمایہ کار ہمارے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا، خوفزدہ قوم کا مورال ویسے ہی گر جاتا ہے، اسے اپنے کسی فیصلے اور کسی اقدام پر یقین نہیں ہوتا، قوم کو عدم تحفظ کے احساس سے نجات دلانا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے اور تعلیم کے فروغ کے لئے تعلیمی بجٹ، فوجی بجٹ بھی زیادہ ہونا چاہیے، سرکاری اخراجات کم کرنے چاہئیں، وزیروں، مشیروں اور اراکین اسمبلی کی مراعات میں کمی ہونی چاہیے اور ان پر کام کا بوجھ بڑھنا چاہیے اور اساتذہ کرام کا احترام صدر اور وزیراعظم سے بھی زیادہ ہونا چاہیے اور مراعات بھی سب سے زیادہ اساتذہ کو فراہم کرنا حکومت کا فرض اولین ہونا چاہیے۔


اساتذہ کی تنخواہیں ہر سکیل پر تین سو گنا بڑھائی جانی چاہئیں۔ ان کا ان کے ماں باپ کا اور بیوی بچوں کا علاج (چاہے وہ بیرون ملک ہو) مفت ہونا چاہیے۔ ان کے بچوں کی ساری تعلیم مفت ہونا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے انہیں رہائش مفت ملنی چاہیے۔ جب تک یہ تمام مراعات اساتذہ کرام کو حاصل نہیں ہوتیں۔ تعلیم کے فروغ اور معیار کا دعویٰ کرنا عبث ہے۔

اس وقت جو ” سہولیات “ اساتذہ کرام کو اور جتنی ” خطیر“ رقم شعبہ و تعلیم کو عنایت فرمائی جارہی ہے، اسے عام زبان میں ” تھوک میں پکوڑے تلنا“ کہتے ہیں۔ اور ایسے پکوڑے کھانے کے نہیں، دوسروں کا سر پھوڑنے کے کام آتے ہیں، ایک مدت ہوگئی کہ ایک دنیا ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کررہی ہے کہ پاکستان کے جملہ مسائل کا واحد حل تعلیم میں مضمر ہے۔

لیکن حرام ہے اگر کسی حکمران کی سمجھ میں یہ بات آئی یا کسی نے سمجھنے کے باوجود اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہو۔
کیا اس بات سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ جتنے بھی حکومتی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے ہیں سب کے سب شعبہ تعلیم کے مرہون منت ہیں، وہ فوجی ہو، سیاستدان ہو جج ہو، وکیل ہو، پولیس ہو، بیورو کریسی ہو، سائنس دان ہو، ڈاکٹر ہو، بنکر ہو، ڈیزائنر ہو، ریڈیو ہو، ٹی وی ہو یا کوئی آرٹس کونسل ہو، علیٰ ہذالقیاس، تمام کے تمام شعبے اس وقت تک چل نہیں سکتے جب شعبہ تعلیم متحرک نہ ہو اور اساتذہ کرام اپنا فرض نہ نبھا رہے ہوں اور افسوس کا مقام ہے کہ متذکرہ بالا تمام شعبہ جات کے ملازمین تو مالی طور پر نہ صرف خوشحال ہیں بلکہ عیاشیاں کررہے ہیں اور ان کو پروان چڑھانے والے اساتذہ کرام تنگ دستی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔


خوشحالی تو درکنار اب تو یہ لوگ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اساتذہ کرام کو عزت و احترام تک دینے کے روادار نہیں بلکہ اساتذہ کرام کو بے عزت کیا جاتا ہے اور ذراسی کوتاہی پر تنخواہ روکنے اور ٹرانسفر کر دینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، اگر یہی حال رہا اور موجودہ حکمرانوں نے بھی شعبہ تعلیم اور اساتذہ کرام کی خوشحالی کے لئے اور عزت و احترام کے لئے قابل ذکر اقدامات نہ اٹھائے تو ہمارے معاشرے کو اور (خدانخواستہ) ملک کو اندرونی خلفشار اور بربادی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

DehshaatGardi Or Shoba Taleem is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.