کرپشن یا احتساب، کون سرخرو ہو گا؟

قیاسی آرائیوں کے دائرے پھیل اور سکڑ رہے ہیں، اندازوں کے تیر چلائے جا رہے ہیں اور تجزیوں کے گھوڑے دوڑ رہے ہیں نیب کرپشن کے خلاف مہم میں سرخرو ہو گا یا جو اس مہم کا ہدف ہیں نیب پر کاٹھی ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

جمعرات 25 فروری 2016

ehtisaab
اسرا ر بخاری :
قیاسی آرائیوں کے دائرے پھیل اور سکڑ رہے ہیں، اندازوں کے تیر چلائے جا رہے ہیں اور تجزیوں کے گھوڑے دوڑ رہے ہیں نیب کرپشن کے خلاف مہم میں سرخرو ہو گا یا جو اس مہم کا ہدف ہیں نیب پر کاٹھی ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عوامی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ تاثر بہت گہرا ہے کہ نیب اب محض تابع مہمل ادارہ نہیں رہا بلکہ اس کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ نے اسے حکومتی دباؤ سے آزاد کر دیا ہے اور اس کا احتسابی پنجہ حکومتی عہدیداروں اور لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ ”اشرافیہ“ کہلوانے والوں کی گردنیں دبوچنے والا ہے کیا ان یقینی امکانات نے وزیر اعظم نواز شریف کے لئے اضطراب کا سامان پیدا کر دیا ہے اور نیب کے اپنے دائرے میں نہ رہنے اور معصوم لوگوں کو پریشان کرنے سے باز نہ آئی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

(جاری ہے)

یہ الفاظ کیا وزیر اعظم کی جانب سے اس اضطراب آمیز برہمی کا اظہار ہیں، کسی اہم شخصیت، سیاستدان اور حکومتی عہدیدار کے بیانات پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں اور ان پر سیاسی صحافتی اور بالخصوص عوامی حلقوں میں اپنی اپنی فہم و دانش کے مطابق تبصرے جائزے اور تائیدی یا مخالفانہ ردعمل معمول کی بات ہے وزیر اعظم کے بیان اور اس کے فوراً بعد نیب کے پر کاٹنے یا ناحن بڑھ جائیں تو تراشنے کی باتیں، اعلیٰ سطح اجلاس میں نیب کے قوانین میں ترامیم کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے اور بالخصوص سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو نیب قوانین کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت میں سمجھنے والوں کیلئے بہت واضح اشارے ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بڑی سیاسی ہنرکاری کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بیان دیکر کہ نیب قوانین میں ترمیم کرنے والوں کو عوام چور قرار دیں گے ”ایک طرف تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کے لیڈر ایسے انصاف پسند لوگ ہیں کہ نیب میں سب سے زیادہ کیسز ہونے کے باوجود اس کے قوانین کو بے اثر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے جبکہ دوسرے ہاتھ سے حکومت کیلئے یہ پیغام ہے کہ اگر ان قوانین میں ترمیم کیلئے حمایت درکار ہے تو پھر یہ مفت میں نہیں ہو گی اور باخبر ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں جو شرائط پیش کی گئی ہیں ان میں سرفہرست ڈاکٹر عاصم کی موجودہ صورتحال سے گلوخلاصی ہے مزید بتایا گیا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار اپوزیشن لیڈر سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔


نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جو میگا کیسز کی رپورٹ پیش کی گئی ہے یہ 2000ء میں بنائے گئے ان میں کیس نمبر 29 اسحق ڈار کے خلاف ہے انہوں نے 2 کروڑ 30 لاکھ پونڈز اور 4 ارب 74 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی تھی جبکہ کیس نمبر 30 میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے خلاف رائے ونڈ روڈ کی تعمیر پر 21 کروڑ 60 لاکھ روپے سرکاری خزانے سے غیر قانونی خرچ کرنیکا کیس ہے جبکہ 35 نمبر کیس ایف ا?ئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے ہے ۔

اگرچہ سرکاری خزانے کا غیر قانونی استعمال اور غیر قانونی بھرتیاں بھی معمولی جرم نہیں لیکن منی لانڈرنگ کا کیس بہت سنگین ہے حکومتی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم کا اسحق ڈار سے جو خاص تعلق قائم ہو چکا ہے اور ان کے خلاف آئندہ ماہ کارروائی جو گرفتاری بھی ہو سکتی ہے وزیر اعظم کا اضطراب اور برہمی کی وجہ ہے یا واقعی نیب معصوموں کو دکھ دے رہی ہے کیونکہ نیب کے اہلکاروں کے دامن بھی داغ دھبوں سے پاک نہیں ہیں اس لئے باوجود کرپشن کیسوں میں انہیں سیدھے سبھاؤ کام کرنا ہی ہو گا اور اس کا پس منظر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ دو ٹوک بیان ہے کہ ”ہم کرپشن کے خلاف بھی جنگ لڑیں گے کیونکہ کرپشن ہی دہشت گردی کی سرپرست ہے“ دوسرے چیئرمین نیب کو طاقتور حلقوں کی جانب سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ہرگز پیچھے نہ ہٹیں ورنہ ان کے اپنے کھاتے کھل سکتے ہیں ادھر حکومت بھی اپنی سی کر رہی ہے اور چیئرمین نیب کے اسلام آباد کے قیمتی علاقوں میں دو پٹرول پمپوں اور دیگر کاروبار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا کام ایک خفیہ ادارے کو سونپ دیا گیا ہے۔

چیئرمین نیب نے اپنا فرض نبھانے یا اپنی کھال بچانے کیلئے اہم شخصیات پر کیس کی تفتیش مکمل کر کے جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں لگتا ہے اس سے پہلے کہ حکومت نیب قوانین میں ترامیم کر کے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دے وہ اہم شخصیات کو گرفتار کر کے عدالتوں کے سپرد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بہر حال کرپشن کے ناسور نے پاکستان میں ہی جڑیں نہیں پھیلائی ہیں دنیا کے مختلف ممالک میں اثر و رسوخ اور اختیارات رکھنے والے اسی جرم کے مرتکب ہوتے رہے ہیں شاید یہ بات ناقابل یقین ہو روس کے پیوٹن اور ان کی فیملی کا ہر چھوٹے بڑے ٹھیکے میں حصہ ہے۔

انڈونیشیا کے صدر سوہارتو اور ان کا خاندان 1250 کمپنیوں میں حصہ دار تھا اور ملک کے آئل بزنس پرسو ہارتو کی داشتاؤں کی اجارہ داری تھی نائجیریہ کے جنرل ساکی اباچہ نے ملک میں ویکسین کی فراہمی کیلئے ذاتی کمپنی بنائی اور حکومت سے 111 ملین ڈالر وصول کر کے صرف 23 ملین ڈالر کی ویکسین فراہم کیں تاہم اعلیٰ سطح پر احتساب کے روشن مگر عبرت آمیز باب بھی ہیں مثلاً فرانس کے وزیر اعظم سرکوزی پر سب مرین کے سودے میں کرپشن کا الزام لگا اور ابھی یہ مقدمے بھگت رہے ہیں بھارت کے سابق وزیر اعظم نرسیما راؤ کو کرپشن کے جرم میں تین سال قید بھگتنی پڑی چین کے وائس ایڈمرل وینگ شوئی پر کرپشن سے پیسے بنانے کا الزام لگا اور اس کے گھر چھاپا مار کر فرج، واشنگ مشین اور مائیکرو ویو سے 20 ملین ڈالر برآمد ہوئے وینگ شوئی کی صدر جیانگ زی من سے بہت دوستی تھی مگر صدر نے اس کی موت کے پروانے پر کسی ہچکچاہٹ کے بغیر دستخط کئے۔

شمالی کوریا کے چیف آف آرمی سٹاف ڑنگ لی کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ شمالی کوریا میں بھی ہزاروں لوگوں نے یہ منظر دیکھا ایک بوڑھے شخص کو جو ایک عرصہ روپوش رہنے کے بعد گرفتار ہوا پولیس والے گھسیٹتے ہوئے میدان میں لائے مجمعے کے سامنے اس کے جرائم پڑھ کر سنائے گئے وہ جس محکمے کا سربراہ تھا اس کے فنڈز سے کچھ مہمانوں کی خاطر تواضع کی اپنے بیٹے کواس محکمے میں ملازمت دی اور محکمے کے ٹیلی فون سے کچھ کالیں ذاتی مقاصد کیلئے کیں ۔

اسکے بعد اسے میدان میں بنائے گئے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک لاکھ افراد کو کرپشن ثابت ہونے پر مختلف سزائیں دی گئیں۔ شنگھائی کے میئر اور ڈپٹی میئر اور بیجنگ کے ڈپٹی میئر کو کرپشن کے جرم میں گولی مار دی گئی پاکستان میں کرپشن نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں مگر سزا پٹواری، نائب تحصیلدار، کانسٹیبل یا سب انسپکٹر جیسے چھوٹے اہلکاروں کو ہی ملتی رہی ہے اب بڑوں پر ہاتھ پڑنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو اس کے ذمہ دار ادارے کو ہی نکیل ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ا ب دیکھنا یہ ہے کہ کرپشن اور احتساب میں سے کون سرخرو ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

ehtisaab is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.