احتساب سب کا ہونا چاہیے

بلی اور چوہے کا محاورہ ”بلی چوہے کا کھیل “ تو سب نے سنا ہے اور بلی اور شیر کا محاورہ”بلی شیر کی خالہ ہے“ بھی سبھی نے سنا ہے لیکن چوہے اور شیر کا امتزاج شاید پہلی دفعہ سننے میں آیا ہے اور یہ اعزاز پاکستانی سیاست دانوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے اردو لغت میں ایک نئے محاورے کو شامل کیا۔

بدھ 1 جون 2016

Ehtesaab Sab ka Hona Chahiye
نازیہ جبیں:
بلی اور چوہے کا محاورہ ”بلی چوہے کا کھیل “ تو سب نے سنا ہے اور بلی اور شیر کا محاورہ”بلی شیر کی خالہ ہے“ بھی سبھی نے سنا ہے لیکن چوہے اور شیر کا امتزاج شاید پہلی دفعہ سننے میں آیا ہے اور یہ اعزاز پاکستانی سیاست دانوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے اردو لغت میں ایک نئے محاورے کو شامل کیا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے مختلف تجزیے اور پڑھنے کومل رہے ہیں لیکن یہ تجزیہ سب سے زیادہ گردش میں ہے کہ مسلم لیگ ن اور فوج کے حوالے سے تاریخ کے دہرائے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔

جہاں تک سیاسی جماعتوں کا موقف ہے وہ یہ ہے کہ تمام حکومت مخالف عناصر کا ملک میں احتساب ہونا چاہیے۔ یہی نقطہ نظر حکومت کا بھی ہے کہ احتساب سب کا ۔ چونکہ نواز شریف صاحب ملک کے وزیراعظم ہیں تو سب سے پہلے انہیں اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرنا چاہیے اور یقینا جو وزیراعظم بننے کے خواہش مند ہیں ان کو بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دینا چاہیے تاکہ قوم اپنے تمام نمائندوں سے آگاہ ہو جو حکومت میں آنے کے طلبگار ہیں۔

(جاری ہے)

سننے میں تو یہی آرہاہے کہ تمام مخالف امیدوار احتساب سے زیادہ وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پچھلی بار جب 2014 میں عمران خان اور ان کے ہم نشین قادری صاحب نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو پی پی پی حکومت کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس لیے حکومت بآسانی ڈانوں ڈول والی کیفیت سے باہر آگئی اور مخالفین کو شکست ہوئی۔ اب کی بار یہ سوچا جا رہا تھا کہ مخالف پارٹیاں یکجاہیں اور حکومت پر دباو میں اضافہ ہو گیا ے ۔

اس لیے حکومت ٹف ٹائم سے گزر ہی ہے اور اب کی بار معاملات سلجھتے دکھائی نہیں دیتے۔ ایسا اس تناظر میں کہا جا رہا تھا کہ تمام مخالف پارٹیاں وزیراعظم کے استعفیٰ سے کم پر راضی نہیں ہونگی۔ اس بات کے پیش نظر اپوزیشن کے دو روزہ اجلاس میں مغزماری کی گی اور متفقہ ٹی او آرز کا اعلان کر دیا گیا۔جہاں تک وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ تھا اس مطالبے پر اتفاق رائے ممکن نہ ہو سکا۔

مشاہد حسین نے استعفیٰ کی مخالفت کر دی۔ اسی باعث دوسرے اجلاس میں انہیں شریک نہیں کیا گیا۔ اعتزازاحسن نے یہ بھی کہہ دیا کہ استعفیٰ پر اختلاف سے اپوزیشن اتحاد کمزور نہیں ہوگا جبکہ استعفیٰ پر اختلاف رائے سے اتحاد میں ڈینٹ تو پڑ گیا ماننے یا نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ جس بات پر اتفاق ہوسکا اس میں یہ بات سر فہرست ہے کہ کمشن خصوصی قانون کے تحت بنایا جائے جو وزیراعظم سے تین ماہ میں تحقیقات مکمل کر ے۔

وزیراعظم تو پہلے ہی احتساب کے لیے تیار ہیں البتہ آئندہ کے لیے یہی لائحہ عمل ہونا چاہیے کہ نامزد وزیراعظم اور تمام ارکان اسمبلی کے اثاثوں ذرائع آمدنی اور ٹیکس کی تفصیلات الیکشن سے پہلے پبلک کے سامنے لائی جائیں۔اس سے عوام کا اداروں اور اپنے نمائندوں پر اعتماد بڑھے گا اور سب چور دروازے بند کر دینے چاہئیں تاکہ صاف اور شفاف طریقے سے عوامی نمائندوں کا انتخاب ہو سکے۔

عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف کے شور سے صاف لگتا ہے کہ وہ قصور دار ہیں تو شور تو عمران خود بھی بہت مچاتے ہیں وزیراعظم بننے کے لیے۔ لیکن آگے چل کے دیکھا جائے گا کہ شور کرنے میں کون سچا ہے ۔ وزیراعظم یا وزیراعظم بننے کے خواہشمند امیدوار۔ لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت تک شور بند کر کے عوامی مسائل کی طرف توجہ دی جائے تو بہترہے۔

گرمی کی شدت کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے موسمی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے اور لوگوں کو اس کے اثرات سے بچانے کے لیے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے۔
بلاول نے بھی اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر اطمینان کا اظہار کر دیا ہے۔ اچھا ہے کہ وہ بھی وزیراعظم کے استعفیٰ سے کم پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہٰذا ایک بات تو طے ہو گی ہے کہ اپوزیشن اب وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں چاہتی ۔

اب معاملہ صرف ٹی او آرز کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ٹی اوآرز پر متفق نہیں، پھر چوائس یہی رہ جاتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر ٹی او آرز مرتب کر لیں۔ ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کر لیں جس پر دونوں اپنے موقف میں کس حد تک لچک پیدا کرتی ہیں۔ آئندہ کے سیاسی منظر نامے کا تعین حکومت اور اپوزیشن کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاو پر کیا جا سکتا ہے ۔

اگر سیاسی معاملات سیاسی طریقے سے حل کر لیے جائیں تو تیسری قوت کو مداخلت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سیاسی جماعتوں کو تیسری قوت کے لیے جگہ پیدا کرنے کی بجائے سب کا احتساب کرتے ہوئے سیاسی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر غور کرنا چاہیے۔ خبر یہ ہے کہ عمران خان نے فیصل آباد کا جلسہ لاہور جلسے میں خواتین سے بدسلوکی کے نتیجے میں ملتوی کیا ہے۔ اس سے اور شرمناک بات کیا ہو گی کہ اکیسویں صدی میں بھی ایک سیاسی پارٹی خواتین ورکروں کی عزت کی حفاظت نہ کرسکے۔

یہ غالباََ دوسرا واقعہ ہے کہ اسلام آباد کے بعد لاہور میں خواتین کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔ اسی وجہ سے لاہور کے جلسے میں خواتین کی تعداد اسلام آباد میں ہونے والے جلسوں سے کہیں کم تھی۔اس پر ہم سب کو شرم محسوس کرنی چاہیے کہ ہم کسی معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں خواتین کا تحفظ آج بھی ایک المیہ ہے۔ ہمارے اندر سے دوسرے کی عزت و احترام کا عنصر بالکل ختم ہو گیا۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ عورت کی عزت کوی نہیں کرتا ہر مرد اپنی بیٹی، بہن یا بیوی کی عزت کرتا ہے لیکن اگر ہم چا ہتے ہیں کہ ہماری بیٹی ، بہن اور بیوی کی عزت کی جائے تو ہمیں دوسروں کی بیٹی ، بہن اور بیوی کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ خواتین کو بھی اس بارے میں سوچنا ہوگا کہ جہاں ان کی عزت کی حفاظت نہیں اس جگہ سے دو ر ہی رہیں تو بہترہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Ehtesaab Sab ka Hona Chahiye is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.