انگلستان میں قائداعظم نے تعلیم کی حقیقی جمہوری سوچ کو تقویت دی

انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے سے قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی جمہوری سوچ کو بہت تقویت ملی۔ جمہوریت اس کے تصورات اور افکار آج کی سوچ ہے۔ ملک کی آزادی اور اس کے لئے عملی جدوجہد ان کی پہچان ہے۔

جمعرات 25 دسمبر 2014

England Main Quaid e azam ne taleem ko
ثریا کے ایچ خورشید:
جس عہد میں قائداعظم نے پرورش پائی۔ تعلیم حاصل کی، سیاست میں قدم رکھا۔ اس عہد اس زمانے کے خیالات اور نظریات ہیں جو ان کے سیاسی افکار بنے۔ جب انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو یہ واضح ہو گیا تھا کہ ان کی سوچ کیا ہے، وہ ملک اور مسلمانوں کی بہتری کے لئے کیا محسوس کرتے ہیں۔ جب قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

تو دو بہت اہم واقعات دنیا میں ہو گئے تھے۔ ایک فرانس کا انقلاب تھا جس نے جمہوریت، سیکولر فکر آور روشنی کی دنیا میں ابتداء کی یورپ میں فرانسیسی انقلاب کا بہت چرچا تھا۔ دوسرا 19 صدی کے وسط میں شکشانتی مکمل ہوا۔ میں نے فرانسیسی انقلاب پر مہر ثبت کر دی کہ دنیا میں اب جمہوریت ہی قابل قبول ہو گی۔

(جاری ہے)


انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے سے قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی جمہوری سوچ کو بہت تقویت ملی۔

جمہوریت اس کے تصورات اور افکار آج کی سوچ ہے۔ ملک کی آزادی اور اس کے لئے عملی جدوجہد ان کی پہچان ہے۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ جمہوریت کے دلدادہ تھے اور پاکستان کے قیام کے لئے جمہوریت ان کی اولین سوچ تھی۔ قرارداد پاکستان جو 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کانفرنس میں منظور کی گئی۔ اس کے لفظ ہمارے ذہن میں ہمیشہ رہنے چاہئیں۔

کیونکہ اس میں پاکستان کی بقا ہے۔ قرارداد پاکستان کے الفاظ میں ہمیشہ یاد رکھنے چاہئیں وہ یوں ہیں۔ اس ملک میں کوئی دستور خاکہ قابل عمل مسلمانوں کے لئے نہیں ہو گا۔ جب تک مندرجہ ذیل اصولوں پر مرتب نہ کیا جائے۔ یعنی جغرافیائی اعتبار سے متعلقہ علاقے الگ خطہ بنا دئیے جائیں اور علاقائی ترمیمیں ضروری سمجھی جائیں تاکہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں کے اندر مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

وہ یکجا ہو کر ایسی ریاست بن جائے جن کے اجزائے ترکیبی خود مختار ہیں۔ یہ اعلان آزادی ہے جو قرارداد پاکستان کی صورت میں 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں منظور کیا گیا۔
اللہ کی مہربانی سے پاکستان 14 اگست 1947ء کو آزاد مملکت کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا۔ اس کے 3 روز قبل 11 اگست 1949ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس کراچی میں ہوا۔

اس اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی اور اس موقع پر ان کی تقریر ان کی جمہوری طرز فکر کی آئینہ دار ہے۔ جس میں انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ پاکستان بسنے والے سب لوگ بلا… رنگ و نسل ، قومیت اور مذہب برابر ہیں۔ پاکستان کا طرز حکومت جمہوری اور پارلیمانی ہو گا لوگ اپنے ووٹوں سے اسمبلیوں کا چناوٴ کریں گے اور یہ اسمبلیاں ان کی امنگوں کے مطابق قانون سازی کریں گی۔

قائداعظم کی اس تقریر میں پاکستان کا دستوری خاکہ موجود تھا۔ اور اس تقریر میں انہوں نے واضح طور پر یہ بھی کہا تھا کہ ریاستی امور عوام کی رائے سے طے پائیں گے۔
ملک کا نظام حکومت وفاقی اور پارلیمنٹری جمہوری ہو گا جس میں وفاق شامل یونٹوں کو خود مختاری حاصل ہو گی اس میں انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ملک کے اقتدار اعلیٰ کے مالک عوام ہوں گے اور وہ اپنے ووٹوں کے ذریعے نمائندہ اسمبلی اور نمائندہ حکومت منتخب کریں گے۔

جب ہم قرارداد پاکستان اور قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کا مطالعہ کرتے ہیں کہ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قائداعظم جمہوری طرز سیاست اور طرز فکر کے زبردست حامی تھے وہ بنیادی انسانی حقوق، سماجی انصاف، فرد کی آزادی کی مخانت اور افراد کی ترقی کے موقع فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد بہت جلد قائداعظم ہم سے رخصت ہو گئے۔

لیکن قوم کے لئے پاکستان کی آزاد مملکت۔ قرارداد پاکستان اور اپنی تقریر چھوڑ گئے۔ انہیں زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ آزاد پاکستان میں اپنے تصور جمہوریت کے مطابق سماجی کی تعمیر و تشکیل کر گئے اور یہ فرض وہ اپنی قوم کے ذمہ کر گئے۔ قائداعظم کا فرمان تھا۔ کہ ملک کے اقتدار اعلیٰ کے مالک عوام ہیں لیکن ماضی میں عوام کے اقتدار اعلیٰ کی نفی کی گئی۔

1955ء میں صوبوں کو توڑ کر ون یونٹ قائم کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کو 1956ء کے آئین میں آئینی مخانت فراہم کی گئی یہ اقدام قرار پاکستان کی خلاف ورزی تھی۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے 1956ء کا آئین توڑ دیا اور ملک میں نافذ کر دیا۔ یہ قدم قائداعظم کے تصور جمہوریت کی بے حرمتی تھی۔ قائداعظم مارشل لاء کے سخت خلاف تھے جب 1919ء میں انگریز حکومت نے ہندوستان میں رولٹ ایکٹ کے نام سے ایک جمہوریت دشمن قانون نافذ کیا۔

تو قائداعظم نے انگریز حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے وائسرائے کی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ پہلا مارشل لاء آخری مارشل لاء، ثابت نہ ہوا بلکہ اس کے بعد دو اور جرنیلوں نے مارشل لاء کے زور پر حکومت کی اور اس ملک میں 26 سال مارشل لاء کی حکومت رہی۔ قائداعظم کے تصور جمہوریت میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹروں نے اور پاکستان کی بیورو کریسی نے اپنے تصور جمہوریت کی دھجیاں اڑا دیتی۔

مجھے یاد ہے جب ہمارا قیام محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھا۔ وہ وہ جس طرح ایوب خان کی حکومت کو قائداعظم اور تکمیل پاکستان کی نفی قرار دیتی تھیں اور اسی جذبے سے قوم کے اصرار پر صدارتی انتخاب لڑنے کے لئے تیار ہوتی تھیں۔ جس میں زبردست دھاندلی سے حکومت وقت نے آئین … دیا تھا۔ آج قوم ایوب خان کو یاد نہیں کرتی لیکن محترمہ لوگوں کے دلوں میں بستی ہیں۔


قائداعظم کے تصور جمہوریت میں پاکستان کے سب عوام برابر ہیں۔ ان کے تصور جمہوریت میں سب انسانوں کے لئے تعلیم روزگار، رہائش، صحت اور ترقی کے برابر مواقع فراہم کرنے کا تصور موجود ہے۔ لیکن ان کے بعد آنے والوں ن عوام کو ناخواندہ رکھا۔ بیروزگاری اور غربت کو اس کا مقدر بنا دیا۔ اس کو شہری آزادی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا اور اس کے ذہن و فکر پر کڑی پابندیاں عائد کر دی۔

قائداعظم کی خارجہ پالیسی کی بنیاد سب سے … دوستی پر تھی لیکن ان کے بعد آنے والوں نے پاکستان کی آزادی امرکی سامراج کے پاس گروی رکھ دی۔ قائداعظم جمہوری طرز حکومت کے قائل تھے جبکہ پاکستان کے گذشتہ سالوں کی تاریخ اور قائداعظم کے بعد میں آنے والے حکمرانوں کے اقدامات میں قرارداد پاکستان اور قائداعظم کے تصور جمہوریت کے خلاف ہیں۔
میرے شوہر کے ایچ خورشید کو نو عمری میں جب قائداعظم کا سیکرٹری بننے کا شرف حاصل رہا۔ تو اکثر ذکر کرتے تھے کہ پاکستان کا وہ تصور کہاں کھو گیا جس کا خواب قائداعظم اور ان کے مخلص ساتھیوں نے دیکھا تھا اور جس مشکل جدوجہد سے پاکستان کا حصول ممکن ہوا۔ وہ پاکستان کہاں ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

England Main Quaid e azam ne taleem ko is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 December 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.