”ایٹمی دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے “

9 ایٹمی ممالک میں سے پاکستان نے حالیہ متعدد اقدامات کے ذریعے ایٹمی سیکورٹی کے قواعد اور ان پر عملدرآمد کو سب سے بہترین بنایا ہے ا اس ضمن میں پاکستان کے درجہ میں بھی 3 پوائنٹس کی بہتری آئی ہے

منگل 5 اپریل 2016

Etmi Dehshaat Gardi Ka Khatra Bhar Raha Hai
مسرت قیوم:
9 ایٹمی ممالک میں سے پاکستان نے حالیہ متعدد اقدامات کے ذریعے ایٹمی سیکورٹی کے قواعد اور ان پر عملدرآمد کو سب سے بہترین بنایا ہے ا اس ضمن میں پاکستان کے درجہ میں بھی 3 پوائنٹس کی بہتری آئی ہے اور ایٹمی مواد کی حفاظت کے حوالہ سے پاکستان کا درجہ ہندوستان سے بھی بہتر ہوا ہے۔یہ بات 2014ء کیلئے دنیا بھر میں ایٹمی مواد کی سیکورٹی کے حوالہ سے امریکی ادارہ کے مطالعاتی جائزہ میں کہی گئی تھی۔

ہندوستان کا ایٹمی مواد کے قابل استعمال ہتھیاروں کی سیکورٹی کے حوالہ سے 25 ممالک میں سے 23 واں درجہ ہے جبکہ چین کوانڈیکس میں 20 ویں درجہ پر رکھا گیا تھا۔ 2014ء کے این ٹی آئی انڈیکس میں 9 ایٹمی مسلح قوتوں میں سے زیادہ تر کا درجہ وہی ہوتا ہے اس میں صرف ایک پوائنٹ کی کمی بیشی ہوتی ہے جبکہ 2012ء کے مقابلہ میں پاکستان کے ایٹمی مواد کی سیکورٹی کے حوالہ سے تین درجے بہتری آئی تھی جو کہ کسی بھی ایٹمی ملک کی بہتری میں سب سے زیادہ ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان ایٹمی سیکورٹی کے قواعد کو تازہ ترین بنانے کیلئے اقدامات کر رہا ہے اور اس پر سب سے بہترین طور پر عملدرآمد کر رہا ہے۔پاکستان کا دنیا بھر میں ایٹمی مواد کے قابل استعمال ہتھیاروں کی سیکورٹی کے حوالہ سے مجموعی طور پر 22 واں نمبر ہے جبکہ 9 ایٹمی ممالک میں سے پاکستان کے ایٹمی مواد کی سیکورٹی کے اقدامات میں بہتری آئی ہے۔ اب امریکہ میں ہونیوالی ایٹمی کانفرنس میں امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے بارے میں اس حوالے سے پیشرفت ضروری ہے کہ یہ ضمانت دیں کہ وہ دونوں ایٹمی اسلحہ کے حوالے سے غلط راہ پر تو نہیں چل رہے۔

اوباما نے کہا پاکستان اور بھارت برصغیر میں ایٹمی خطرہ کم کریں۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ مسلسل غلط راستے پر نہیں چلیں گے۔اصل میں درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک امریکہ اور روس اپنے ایٹمی اسلحہ میں بڑے پیمانے پر کمی نہیں کرتے۔ ایٹمی ہتھیاروں میں بڑے پیمانے پر کمی ہونا مشکل کام ہے اس لیے دونوں ممالک کو آگے بڑھ کر چھوٹے ملکوں کیلئے ایک مثال بننا چاہیے دوسرا معاملہ برصغیر میں پاکستان اور بھارت کا ہے جنہوں نے ملٹری ڈاکٹرائن بنا رکھے ہیں۔

جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کیلئے امریکہ اور روس کو پہل کرنا ہوگی لیکن پاکستان کے ایٹمی ہتھیار صرف اپنی حفاظت کیلئے حاصل کر رکھے ہیں جیسا کہ میں نے اپنے پہلے کالم میں بھی حوالہ دیا تھا کہ جب دو متحارب قوتوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں گے تو ان میں سے ایک قوت اپنی طاقت سے باہر نکل کر دوسرے ملک کو نیچا دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، بھارت کی ایٹمی دوڑ خطے کو کس جانب لے جائیگی، اس کے ایٹمی اثاثوں پردہشتگردوں کی جانب سے جوہری حملہ کرنے کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔

اوباما نے کہا کہ ماضی میں ڈرون حملوں پر اس حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے کہ ڈرون حملوں کا نشانہ اتنا ٹھیک نہیں ہوتا تھا جتنا کہ ہونا چاہیے اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون حملوں میں عام افراد بھی مارے گئے ہیں جو نہیں مارے جانے چاہئیں تھے۔لیکن اب اوباما حکومت اس حوالے سے کام کر رہی ہے تاکہ ڈرون حملوں میں سویلین ہلاکتیں نہ ہوں۔ وہ کوئی بھی ایکشن لینے سے پہلے اپنے ٹارگٹ کو انٹیلی جنس کی مدد سے بھرپور طریقے سے دیکھتے اور چیک کرتے ہیں پھر ڈبل چیک کرنے کے بعد ایکشن لیتے ہیں۔

دہشتگردی ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ شمالی کوریا کا معاملہ بھی بہت زیادہ باعث تشویش ہے جو جزیرہ نما کوریا میں ہم سب کیلئے خطرے کا باعث بنا ہوا ہے۔
”غیر قانونی ٹاور“: ایپکس کمیٹی خیبر پی کے کے اجلاس میں افغانستان کے ساتھ طور خم اور دیگر کراسنگ پوائنٹس پر بارڈر کراسنگ میکنزم پوری طرح بروئے کار لانے ، سرحدی علاقے سے پشاور کے لوگوں کو بھتہ کی کالز کے معاملہ پر وفد افغانستان بھیج کر معاملہ اٹھانے کافیصلہ کیا،جس قوت پاکستان میں موبائل کمپنیاں آ رہی تھی تب حکومت نے انکے ٹاورز سے ایسے ہی نظریں چرائی رکھیں جیسے دہشتگردوں کے ٹھکانوں سے آنکھیں بند کیے رکھی تھیں دنیا میں جس رفتار سے موبائل فون کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

اس سے منسلک خدشات اور خطرات بھی اسی طرح واضح ہورہے ہیں۔ پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر میں 2020ء تک مجموعی سرمایہ کاری 2.4 ارب ڈالر تک پہنچ جائیگی اور ٹیلی کام سیکٹرکا ریونیو 620 ارب روپے سے تجاوز کر جائیگا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ ”ویڑن 2020“ دستاویزکیمطابق موبائل فون کنکشنز کی تعداد 161 ملین یعنی کل آبادی کا89 فیصد ہونے کی توقع ہے۔

صاف ظاہر ان موبائل کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ٹاورز بھی لگانے پڑھیں گے۔ایک رپورٹ کیمطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تقریباً 20 ہزار موبائل فون ٹاور ز میں سے 16 ہزار ٹاورز محکمہ ماحولیات اور ٹاوٴن انتظامیہ کی اجازت کے بغیر نصب کئے گئے ہیں۔ پنجاب لینڈ رولز 2009ء کے تحت موبائل کمپنیاں صرف کمرشل مقامات پر ٹاورز نصب کر سکتی ہیں لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے اس قانون کی پاسداری نہیں کی گئی۔

اسی طرح وفاقی حکومت کے ماحولیات ایکٹ کیمطابق دن کے وقت فون ٹاورز کے جرنیٹرز کا شور ”65 ڈیسیبل“ اور رات کے وقت ”50 ڈیسیبل“ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے جب کہ موبائل کمپنیوں کے جرنیٹرز کم ازکم ”70 ڈیسیبل“ شور پیدا کرتے ہیں۔ کئی یورپی ممالک میں محکمہ صحت موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز لگانے کیلئے جگہ کی نشاندہی کرتا ہے مگر اسکے برعکس پاکستان میں ہر گلی‘ کوچے میں خستہ حال مکانوں کی چھتوں، خالی پلاٹوں، عالیشان پلازوں اور کھیتوں تک میں موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور نصب ہیں جن کی تنصیب میں محکمہ صحت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کیونکہ موبائل فون کمپنیاں ٹاور لگانے کیلئے کرایہ کی مد میں معقول ادائیگی کرتی ہیں۔

حکومت اس جانب سنجیدگی سے سوچے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Etmi Dehshaat Gardi Ka Khatra Bhar Raha Hai is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 April 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.