فوری انصاف کیسے ملے

عدالتوں میں تو جج ہی نہیں ہمارے رہنماء یہی یقین دلاتے ہیں کہ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں، رشوت ، طاقت ، جبراور اختیار سمیت متعدد کہانیاں سبھی کے علم میں ہیں۔ ان داستانوں کو نظر انداز کردیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے

جمعہ 27 مئی 2016

Foori Insaaf Kaise Mille
ہمارے رہنماء یہی یقین دلاتے ہیں کہ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں، رشوت ، طاقت ، جبراور اختیار سمیت متعدد کہانیاں سبھی کے علم میں ہیں۔ ان داستانوں کو نظر انداز کردیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ ہمارے یہاں انصاف کی راہ میں حائل دھونس، دھاندلی کی داستانیں درست نہیں ہیں اور سرکار فوری انصاف فراہم کرنا چاہتی ہے تو پھر بھی فوری انصاف ملنا مشکل ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف لاہور کی ماتحت عدالتوں میں 47 ایڈیشنل سیشن جج اور 92 سول جج موجود ہی نہیں ہیں۔ ان کی کمی کی وجہ سے زیر التواء مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 85ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح ساڑھے 11 ہزار سے زائد سزائے موت کے کیسز بھی گزشتہ 7سالوں سے التوا کا شکار ہیں۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ لاہور کی ماتحت عدالتوں ے ججز کی تعداد 370 منظور کی گئی ہے لیکن اس وقت کل 139 ججز ہیں لہٰذا موجودہ ججز زیر التواء مقدمات کے بوجھ تلے اس قدر دب چکے ہیں کہ بروقت فیصلے محال ہو گے ہیں۔

جوڈیشل پالیسی کے تحت سیشن عدالت کی جانب سے تیار رپورٹ کے مطابق مجسٹریٹ کی عدالتوں میں 295، سیشن عدالت میں3ہزار 61 ضمانت کی درخواستیں ، 6 ماہ سے 7 سال تک کی قید کی دفعات کے تحت درج مقد مات کی تعداد 36 ہزار823 اور سزائے موت کے 11ہزار 657 کیسز زیرالتواء ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر مقدمات میں سماعت کے لیے دوسری عدالتوں میں بھجوانے کے لیے 65 درخواستیں، سپرداری، پراپرٹی کے معاملات سمیت دیگر 469 درخواستیں بھی زیر التواء ہیں۔

منشیات کے 58 پرانے اور 4ہزار 136 نئے کیسز بھی اسی فہرست کا حصہ ہیں۔آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 727 فوجداری نظر ثانی کے مقدمات، خواتین پر تشدد زیادتی سمیت دیگر 421 مقدمات سمیت کم عمری میں جرائم میں ملوث 69 بچوں کے مقدمات پر بھی کارروائی نہیں ہو سکی۔ اسی طرح فوجدادی نوعیت کے دیگر 11 ہزار 302 نئے اور 16 پرانے مقدمات بھی تاخیر کا شکار ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ 2012 سے تاحال دائر سول نوعیت کے حکم امتناعی کی 13 ہزار 943 درخواستیں 2012 سے قبل دائر ہونے والے 34 پرانے رینٹ کے مقدمات اور 2ہزار 255 نئے مقدمات بھی زیر التواء ہیں۔

اسی طرح 797 کرایہ داری کسیز کے ساتھ ساتھ سول نوعیت کی 2ہزار 18 نظرثانی پٹیشنز پر بھی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بچوں کی حوالگی، طلاق ، خلع اور فیملی نوعیت کی 498 پرانی درخواستیں اور 18 ہزار859نئی درخواستوں سمیت فیملی کیسز کی 1ہزار 57 اپلییں، کمپنی کے دیوالیہ ہونے سے متعلق 3درخواستیں اور رقم سمیت سامان کی واپسی کے لیے 234 کیسز بھی سماعت کے منتظر ہیں۔

یہ فہرست ابھی مکمل نہیں ہے۔ ابھی مزید کئی ہزار مقدمات کا ریکارڈ باقی ہے جو التواء کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال صرف ایک شہرکی ہے لیکن اس آئینہ میں پورے پاکستان کے حالات دیکھے جاسکتے ہیں۔اب تو مظلوم انصاف بھی نہیں مانگنا بلک اب فریاد جج کے لیے ہو رہی ہے۔ انصاف ملے گایا نہیں ی سوال تو بعد کا ہے ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ معزز جج کی کرسی خالی رہے گی یا وہاں جج موجود ہوں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ججز کی تعیناتی نہ ہونا بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے یا پھر اسے معمول کی کارروائی قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Foori Insaaf Kaise Mille is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 May 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.