گرمی کی شدت لوڈشیڈنگ اور عوام

آج جبکہ سورج آگ برسا رہا ہے گھروں اور دفاتر میں پنکھوں کے ساتھ سپلٹ اور ائرکنڈ یشنز کے ساتھ روم کولر کا استعمال بھی تیزی سے بڑھا ہے جس سے شارٹ فال چار ہزار سے پانچ ہزار کمی کا شکار ہو گیا لہٰذا اب جیسے جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے

ہفتہ 21 مئی 2016

Garmi Ki Shidat
محمد احمد چشتی :
آج کل وطن عزیز شدید گرمی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے اگرچہ پاکستان ان خوش قسمت خطے میں واقع ہے جہاں قدرت نے ہر موسم عطا کیا ہے کبھی سردی تو کبھی گرمی ، کبھی موسم بہار ہے تو کبھی خزاں۔ دنیا کے کئی خطے ایسے موسموں کو ترستے ہیں بلکہ دنیا کے کئی خطے تو ایسے ہیں جہاں کئی کئی ماہ رات کا سماں رہتا ہے اور کبھی کئی کئی ماہ سور ج نہیں ڈوبتا۔

اسی طرح کئی یورپی ممالک برف باری کی زد میں رہتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارا ملک جس خطے میں واقع ہے یہ قدرت کا خاص انعام ہے۔ اس مومسوں کے تغیر و تبدیل کی مناسبت سے جہاں ملبوسات اور رہن سہن کا اندازہ بدلتا رہتا ہے اسی طرح خوراک میں بھی موسم کا بڑا عمل دخل ہے ۔ قدرت نے موسموں کے حساب سے کئی سبزیاں اور پھل پیدا کئے جن سے ہم لطف اندوز ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

آج کل موسم گرماہے جب میں لوکاٹ، فالسہ، آم ،خربوزہ اور تربوز کے استعمال کے بے شمار فواء ہیں آج جبکہ سورج آگ برسا رہا ہے گھروں اور دفاتر میں پنکھوں کے ساتھ سپلٹ اور ائرکنڈ یشنز کے ساتھ روم کولر کا استعمال بھی تیزی سے بڑھا ہے جس سے شارٹ فال چار ہزار سے پانچ ہزار کمی کا شکار ہو گیا لہٰذا اب جیسے جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے کئی کئی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے۔


ایک اطلاع کے مطابق اس وقت شہری علاقوں میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک اور دیہاتوں میں بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے جس پر شہری اکثر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ دراصل کل کی نسبت آج بجلی کی ضرورت بڑھی ہے۔ کبھی صرف گھروں میں بجلی کا ایک ریڈیووہ بھی کسی کسی گھر میں ہو اکرتا تھا یا کسی کسی کے پاس الیکٹرک استرہی ہوتی تھی ۔ زیادہ تر کوئلے کی استری گھروں اور لانڈری والے استعمال کرتے تھے۔

اسی طرح گھروں میں ایک پنکھا ہوا کرتا تھا آج صورت حال بڑی مختلف ہے ۔ ایک اور صورت جس نے بجلی کی ضرورت کو بڑھایا وہ ایسی بلڈنگیں ہیں جن میں اے سی کے بغیر بیٹھنا ممکن نہیں ۔ آج قیام پاکستان سے قبل یا بعد کے سالوں میں لاہور، کراچی، راولپنڈی، میں بننے والی بلڈنگوں کا جائزہ لیا جائے تو ان بڑی عمارتوں کے گراونڈ فلور پر برآمدے ہوتے تھے اسی طرح دوسری منزل پر بھی یہی صورت حال تھی جس سے دفاتر یا گھروں کے کمروں میں ہوا کی آمدورفت رہتی تھی۔

اسی طرح ان کی چھتوں کی بھی بلندی ہوا کرتی تھی اور روش ان بھی اہم کردار ادا کرتے تھے آج ہم ایسے شیشے کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے پلازے تعمیر کر رہے ہیں جن میں موسم گرما کے دوران پنکھوں اور اسے سی کے بغیر بیٹھنا اور کام کرنا نا ممکن ہے اس لیے انہوں نے بڑے بڑے جنریٹر بھی لگالیے اور اس سے بھی ماحول متاثر ہوتا ہے جب پٹرول ڈیزل کے بڑے جنریٹر چلیں گے تو اس سے ماحول آلودہ بھی ہوگا اور اس کا منفی اثربھی پڑے گا ۔

لہٰذا آج گرمی کے بڑھنے کے ساتھ لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے تو غریب کو بلوں میں زیادہ یونٹ ڈالنے کی وجہ سے زیادہ بلوں نے بھی آگ بگولہ کر دیا ہے کیونکہ بجلی چوری واپڈا اہل کاریوں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جو ان سے مل جاتے ہیں ان کے وارے نیارے اور اس بجلی چوری اور لائن لاسز کا سارا بوجھ بجلی کے ان کسٹمرز پر پڑتا ہے جو ایمان داری سے اپنا بل دیتے ہیں۔

ہر ماہ سو ڈیڑھ سو یونٹ زیادہ بلوں میں ڈالنے سے ان کا گھریو بجٹ بھی متاثر ہوتا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ واپڈا حکام جو کہ اب بجلی چوری روکنے کے سلسلے میں اقدامات بھی کر رہے ہیں بلکہ اب بجلی کے بلوں پر میٹر کی تازہ ترین استعمال شدہ یونٹ کی تصویر بھی پرنٹ ہوتی ہے مگر اس ساری صورت حال کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے اور عوام سراپا احتجاج بھی ہیں۔

اس ساری صورت حال سے نکلنے کے لیے اگرچہ موجودہ حکومت اقدامات بھی کر رہی ہے تاکہ 2018 تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے یا کم سے کم ہو۔ اس سلسلے میں متعدد منصوبوں پر کام بھی جاری ہے مگر آج کی صورت حال ہر آنے والے سال کی طرح عوام پر بھاری پڑی رہی ہے اور وہ ایک طرف مہنگائی کی زد میں ہیں تو گرمی میں بجلی نے ان کی زندگی کا اجیرن بنا دیا ہے۔ بہر حال آنے والے دنوں میں ہی اندازہ وہوگا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔


ایک دور تھا جب روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ سادہ لوح عوام کے ووٹ کے لیے بڑا مقبول تھا آج کا دور ہوتا تو اس میں بجلی کا اضافہ ہوتا۔ واپڈا لیبر کے ایک لوث رہنما بشیر بختیار آج بے ساختہ یاد آئے ۔ وہ دونوں طبقوں کو خوش رکھتے تھے یعنی عوام اور ملازمین دونوں کا خیال رکھتے آج ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا جب میٹر گھروں کے اندر لگے ہوتے تھے اور گھروں سے دور کھمبوں پر نصب ہیں اور جب بھی کسی وجہ سے ان میں خرابی ہو تو اسکی ذمہ داری بھی صارف پر ڈال دی جاتی ہے۔ دنیا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے موبائل کی طرح جدید میٹر سے بجلی چوری ممکن نہیں حکام کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Garmi Ki Shidat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 May 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.