اِنتہا پسندی

پاکستان جس صورتحال سے گزر رہا ہے ، اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ہمیں انتہائی حد تک منفی سرگرمیوں اور دہشتگردی کا سامنا ہے۔ عام طور پر ایک خاص طبقہ اس صورتھال کی ذمہ داری مدارس اور مذہبی رجحان رکھنے والوں پر عائد کرتا ہے

منگل 6 جنوری 2015

Inteha Pasandi
اسعد نقوی:
اس وقت پاکستان میں دو انتہائی روئیے مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔ لوگ یا تو مذہبی جنونیت کی جانب جارہے ہیں یا پھر لبرل انتہا پرستی کی جانب راغب ہیں۔ یہی انتہا پرستی ہامرے مسائل کی اصل جڑ ہے۔ ضرورت اس بات کیہے کہ میانہ روی کا ثبوت دیتے ہوئے مکالمہ اور دلائل کو فروغ دیا جائے۔
پاکستان جس صورتحال سے گزر رہا ہے ، اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

ہمیں انتہائی حد تک منفی سرگرمیوں اور دہشتگردی کا سامنا ہے۔ عام طور پر ایک خاص طبقہ اس صورتھال کی ذمہ داری مدارس اور مذہبی رجحان رکھنے والوں پر عائد کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز میں مذہبی جنونی اور لبرلز کے نام پر دو طاقتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو مذہب پرستی سے مذہبی انا کی جانب سفر کرتا چلا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

عموماََ عالم دین اور مذہبی حوالے سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والے اس قدر مذہبی انا کا شکار نہیں ہوتے۔

لگ بھگ سبھی فرقوں سے تعلق رکھنے والے جید علما کرام نہ صرف آپس میں میل ملاقات رکھتے ہیں بلکہ ان کے درمیان مکالمہ بھی جاری ہے۔ پاکستان میں ہونے والی متعدد کانفرنسز میں تمام مکتبہ فکر کے جید علما کرام ایک ساتھ نظر آے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ علما کرام کے بعد ایک مذہبی طبقہ ایسا بھی ہے جو دین کا مکمل علم نہیں رکھتا لیکن انہیں بھی ہمارے ہاں مذہبی شخصیات تصور کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں مساجد کے خطیب اور امام کے تقرر میں ضروری قوائد و شرائط کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ جو مساجد حکومت کی زیر نگرانی نہیں ہین وہاں تو یہ معاملہ اور بھی گھمبیر ہوچکا ہے۔ یہ طبقہ دینی معاملات پر مکمل عبور نہیں رکھتا اور درس نظامی سمیت دیگر مذہبی تعلیم سے بھی دور ہوتا ہے لیکن امام مسجد بن جانے کے بعد محدود علم کی بنیاد پر ہی رائے عامہ ہموار کرنے لگتا ہے۔

انہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”نیم ملا خطرہ ایمان“ ہمارے ہاں چونکہ عام شہری مذہبی حوالے سے شدید جذباتی وابستگی رکھتے ہیں لیکن عموماََ دینی معاملات پر عبور نہیں رکھتے لہٰذا وہ نیم ملا ن ریات کو اسلام سمجھ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام معاملات سے علما حق نے برأت کا اعلان کیا ہے جو غیر شرعی اور اسلام کے برعکس ہیں لیکن اس کیلئے مساجد کے لاؤڈ سپیکرز استعمال کئے گئے ہیں۔

دین ہمیں تکبر ، انا اور صرف کل کے نعرے سے روکتا ہے لیکن نیم مذہبی افراد کم علمی کی وجہ سے مذہبی جنونیت کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں رائج ”ملاازم“ یا ”مذہبی جنونیت“ انہیں کے ہاں نظر آتی ہے جو مزید آگے بڑح کر شدت پسندی اور دہشت گردی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
پاکستانمیں ایک طرف مذہبی جنونیت شدت پسندی اور دہشتگردی ہے تو دوسری جانب لبرل ازم بھی ایک مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

مذہبی جنونیت کے مقابلے میں لبرل طبقہ بھی اسی طرح کا رد عمل ظاہر کررہا ہے۔ لبرل طبقہ میں بھی سب سے بہتر تو صاحبان علم ہی ہیں۔ سکالرز اور محقق صورتحال کو یک چسمی عینک سے نہیں دیکھتے۔وہ دونوں جانب کے نقطہ نظر حقائق اور عمل کو اپنے پیمانے پر جانچتے ہیں اور پرھ ایک متوازن رائے قائم کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس طرح کے غیر جانب دار محقق انتہائی کم ہیں اور معاشرہ بھی انہیں ٹھنڈے مززاج کا تصور کرتے ہوئے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔

انکے برعکس زیادہ تر لبرلز یا روش خیال تصور کئے جانے والے افراد کا ھال بھی ”نیم ملا“ جیسا ہی ہے۔ ان کی اکثریت بھی لبرل ازم سے لبرل پرستی کی جانب جا چکی ہے اور اپنی رائے کے برعکس نقطہ نظر سامنے آں ے پر سیخ پا ہوجاتی ہے۔ ایسے افراد بھی ایک مخصوص نقطہ نظر کے ھامی ہیں اور اپنی مخصوص رائے سے ایک انچ ہٹنے ر آمادہ نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو ایسے افراد کو روشن خیال یا لبرلز نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان کے خیالات اور سوچ کا محور بھی مذہبی جنونی افراد کی نفسیات کی طرح بند گلی تک محدود ہوتا ہے۔

لبرل ازم کی یہ انتہا بھی پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک ہے اور مستقبل میں یہ رویہ بھی اسی طرح نقصان کا باعث بن سکتا ہے جیسے مذہبی انتہا پسندی بن چکی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے اور تحقیقی اور غیر جانبدارانہ رائے ہموار کرنے پر زور دیا جائے۔ اس سلسلے میں تعلیم اداروں کے ساتھ ساتھ علما کرام، سکالرز اور دانشوروں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔

پاکستان کیلئے جتنی مذہبی جنونیت نقصان دہ ہے، اتنے ہی لبرل جنونی بھی خطرناک ہیں۔ یہ وطن اسلام کے نام پر حاص کیا گئیا تھا اور سچھ یہ ہے کہ اسلام ہر معاملے میں زیادتی سے منع کرتا ہے۔ قائداعظم کے نظریات اور اسلام کے رانمہا اصول ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں متواز راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اس کیلئے پاکستان کے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ یا تو ہم مذہبی جنونیت کا شکار ہوجائیں گے اور جہاد کے نام پر دہشتگردی کی کارروائیں معمول بن جائیں گی یا پھر یورپ کی طرح مادر پدر آزاد معاشرہ قائم ہوجائے گا۔ یہ دونوں معاشرے نہ تو اسلام کے مطابق ہیں نہ ہی بانی پاکستان ایسا ملک بنانا چاہتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Inteha Pasandi is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 January 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.