اقبال کا پیغام اسلام

جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کیلئے علامہ اقبال کی شاعری کااصل ماخذقرآن حکیم اور احادیث نبوی ہے

بدھ 9 نومبر 2016

Iqbal Ka Paigham Islam
حاجی میاں محمد طارق :
علامہ اقبال میں شعرگوئی کاشوق شروع ہی سے تھا ، انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے خود دینی تعلیمات کا سہارا لیا جنہیں لوگ عملی طور پر بھلا بیٹھے تھے ،علامہ اقبال کی شاعری کا اصل منبع وماخذ قرآن حکیم اور احادیث نبوی ﷺ تھا۔ علامہ اقبال کا سارا نظریہ حیات صحیفہ آسمانی سے مستعار ہے ۔ انہوں نے عالم انسانیت کی رہبری کے لئے جو فلسفہ حیات پیش کیاوہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی فکرو اقدار کا عکس ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کو دنیا کے کسی خاص خطے سے وابستہ مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے عالم اسلام کو متحد ہونے کا درس دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عالم اسلام متحد ہو کر ہی یہودیوں ، عیسائیوں ، ہندوؤں اور دوسری اسلام دشمن قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہندو اور مسلمان اکھٹے نہیں رہ سکتے ۔

(جاری ہے)


فرد قائم رابطہ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
چنانچہ پورے عالم اسلام کو مخاطب کرنا ان کی زندگی کا اولین مقصد تھا تاکہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شناخت کو حاصل کرسکیں ترقی کی معراج کو پاسکیں اور صحیح معنوں میں پورے عالم انسانی کی رہبری ورہنمائی کا فرض ادا کرسکیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اقبال کا پیغام اسلام کا پیغام ہے ۔

ا نہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مایوسی اور قنوطیت کے اندھیروں میں مسلمانوں کو ان کے کھوئے ہوئے راستے کی شناخت دی اور انہیں یہ احساس دلایا کہ مایوسی اور ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں مسلمان قوم پھر عروج وکمال حاصل کر سکتی ہے مگر اسلام کے لئے شرط یہ لگائی کہ ” اپنی دنیا آپ پیدا کرا گرزندوں میں ہے “ نیزفرمایا۔
نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آسمانوں کیلئے
جہاں سے تیرے لئے تو نہیں جہاں کیلئے
انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ ان کا اپنا ماضی بہت شاندار ہے اور مستقبل بھی شاندار ہوسکتا ہے ۔

انہیں ترقی حاصل کرنے کے لئے اور دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے اغیار کے نقش قدم کو مشعل راہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اگر وہ غور کریں تو اپنے شاندار ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو تابابناک بناسکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دی۔ خودی کے معنی میں بہت وسعت پائی جاتی ہے۔ خودی انسان کی ذات او ر شخصیت کو کہتے ہیں اپنی شاعری میں خودی کی علامت استعمال کرکے انہوں نے یہی سبق دیا ہے کہ انسان اپنی ذات کو پہچانے اپنی حقیقت معلوم کرے خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھے اگر انسان اپنی اصلیت سمجھ جائے تو خدا کا سراغ پالینا مشکل نہیں۔

علامہ اقبال نے اپنے پیغام کے ذریعے مسلمانوں کی اس سوئی ہوئی خودی کوبیدار کیا جس کی شناخت کرکے وہ اپنے خدا کو پاسکتے ہیں ۔
خودی کو بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتاتیری رضا کیا ہے
رہی بات شاہین کی تو وہ صرف علامہ اقبال کا پسندیدہ پرندہ تھا کہ کیونکہ اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو علامہ اقبال ایک مسلمان میں دیکھنا چاہتے تھے ۔

اسے علامہ اقبال نے پرندوں کی دنیا کابادشاہ کہا ہے کیونکہ وہ اپنا آشیانہ پہاڑوں کی چٹانوں پر بناتا ہے وہ اپنے مقام شناخت کو نہیں بھولتا ۔ خود دار اور غیرت مند ہوتا ہے کیونکہ اپنی روزی کماسکتا ہے بلند پرواز اور قناعت پسند ہوتا ہے تیزلگاواور توکل رکھتا ہے ۔
اقبال کا نقطہ نظریہ ہے کہ شہباز غیرت کا استعارہ ہے ، وہ زمین پر آکر انسانوں سے رزق کا محتاج نہیں وہ فضا ہوائے نفس کی لہراسے مقدرکی تاریکیوں ونکبت کے اندھیروں میں پھینکتی ہے جبکہ اس کی بندش وتحدید سے الفامات حیات سے بہرہ مند کرتی ہے ۔


علامہ کے کلام میں نفس عشق اس جذبہ عمل سے عبارت ہے جو انسان کے اخلاقی وروحانی وجود کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے جو انسان کو خاک سے اٹھا کر ہمددش ثریا کردیتا ہے ۔ عشق کا تعلق کیونکہ باطن سے ہے لہٰذا وہ باطن کے ان حقائق کی نقاب کشائی کرتا ہے جو عقل جزوی کی دستری سے ماورا ہوتے ہیں چنانچہ اقبال نکلسن کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں۔
یہ لفظ بہت وسیع معنی میں استعمال ہو اہے اس کا مطلب ہے حقائق زندگی اپنے اندر جذب کرلینا اس کی اعلیٰ ترین منزل اخلاق منزل کمال ہے اور وہ کردار ہے جو اخلاقی عالم کا نمائندہ وترجمان ہو۔
نقطہ نورے کہ نام اوخودیست
زیر خاک ماشرار زندگیست

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Iqbal Ka Paigham Islam is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 November 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.