کشمیر اور ہماری خارجہ پالیسی

یوم یکجہتی کشمیر صرف زبانی طور پر نہیں منایا جاتا بلکہ عوام اخلاقی طور بھی بھی کشمیریوں کی مدد کرتے ہیں پاکستانی افواج اور قوم کشمیر کے مسئلے پر ایک ہے۔ آج کل اکثرو پیشتر سننے میں آ رہا ہے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے

ہفتہ 6 فروری 2016

Kashmir Or Hamari Kharja Policy
امتیاز احمد تارڑ:
یوم یکجہتی کشمیر صرف زبانی طور پر نہیں منایا جاتا بلکہ عوام اخلاقی طور بھی بھی کشمیریوں کی مدد کرتے ہیں پاکستانی افواج اور قوم کشمیر کے مسئلے پر ایک ہے۔ آج کل اکثرو پیشتر سننے میں آ رہا ہے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے بلکہ ایک خود مختار کشمیر چاہتے ہیں، پہلی تو یہ بات ہے کہ یہ حقیقت نہیں بلکہ تحریک ِ آزادی کو ختم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ہے، ایک منٹ کیلئے اگر فرض کر لیا جائے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے تو اس میں کشمیریوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ پاکستانی سیاستدانوں کی ناکام خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی تاریخ کے آئینے میں واضح ہے بینظیر بھٹو نے 1988 ء میں حکومت سنبھالتے ہی راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی۔

(جاری ہے)

دسمبر 1988 میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے ملک عزیز کی جس جس جگہ پر لکھا تھا ”کشمیر بنے گا پاکستان” وہ اور اس جیسے لکھے الفاظ مٹوا دیئے گئے یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاوٴس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاوٴس لکھا تھا۔

اسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے کسی نے ان راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں وکشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے۔بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی اور اس طرح جموں وکشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی۔پاکستانی قوم اور فوج کی آزادی کشمیر کیلئے قربانیوں کی منفرد تاریخ ہے۔

1948ء کی جنگ میں جب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا تب قائد اعظم محمد علی جناح زندہ تھے۔قائد اعظم نے جہاد کی اجازت دی۔ آپ اندازہ کریں کہ وہ 73 سالہ بزرگ، ضعیف اور کمزور جس کا وزن 90پونڈ تھا تو انکی حالت کیا ہوگی۔ بیماری کے ہاتھوں وہ اس وقت آخری سانسوں پر تھے لیکن آپ پھر بھی انکا عزم دیکھیں۔ ان کیلئے کشمیر اتنا اہم تھا کہ انہوں نے کہا چڑھ جاو اسکے اوپر کیا ان کو خطرات نظر نہیں آ رہے تھے۔

پاکستان اس وقت لڑکپن اور بچپنے کی حالت میں تھا۔ ایسی صورت میں بھی جس شخص کو فیصلہ کرنا تھا اس نے فیصلہ کردیا کہ ہم کشمیر لیں گے اور جو کشمیر آج ہمارے پاس ہے وہ قائد اعظم کا مرہون منت ہے۔اہل کشمیر آج 21 اکسویں صدی میں بھی آزادی سے محروم ہے ، کشمیر کا آزاد نہ ہونا بھارت کی عیاری مکروفریب اور دغا بازی کو عیاں کرتا ہی ہے مگر دنیا کے ٹھیکیداروں کو حسد بغض اور کینہ پروری سے کسی بھی صورت پاک نہیں کرتا، عالمی قوتیں جو کشمیر کی آزادی محض اس لئے نہیں چاہتے کہ کشمیر آزاد ہوگا تو پاکستان سے الحاق کر لے گا۔

جس طرح ایسٹ تیمور کو انڈونیشیا سے اور دافر کو سوڈان سے الگ کر کے عیسائی ریاستیں بنایا گیا ہے اسی طرح کشمیر کو بھی الگ ریاست بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہو رہا کیونکہ یہاں بسنے والے سبھی مسلمان ہیں۔ گلاب سنگھ سے انگریز،انگریز سے ڈوگرہ، ڈوگرہ سے بھارت کی متعصب ہندو حکو مت کی غلامی جو بظاہر خود کو سیکولر قرار دیتی ہے لیکن دراصل وہ کسی غیر ہندو کو بھارت کی زمین پر رہنے کا حق بھی نہیں دیتی اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتاکہ حکومت کس جماعت کی ہے، کانگریس ہو بی جے پی یا کوئی اور اس کا صرف ایک منشور ہوتا ہے اور وہ ہے مسلمانوں کیخلاف کام کرنا اور بھارت کی زمین اس پر تنگ کرنا۔

کشمیر کے مسلمان اسکے مظالم کا سب سے زیادہ شکار رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین چارجنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947 ء ، دوسری 1965 ء اور تیسری1971 ء چوتھی1999ء میں لڑی گئی اسکے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہاجاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے جس پر اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی ہے۔

ہندوستان پورے جموں و کشمیر پرملکیت کا دعویدار ہے۔ 2010 ء میں ہندوستان کا کنٹرول 43فیصد حصے پر تھا جس میں مقبوضہ کشمیر جموں ، لداخ اور سیاچن گلیشئیر شامل ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 37فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل میں ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں مسئلہ کشمیر پر ایک بنیادی نظریہ پر کھڑے ہونے کا دعوی کرتے ہیں تقسیم ہند کے دوران جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھاجس کی آبادی 95فیصد آبادی مسلم تھی۔

جب ہندوستان کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دئیے گئے پر کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھااور وہ چاہتا تھاکہ بھارت کے ساتھ ہو جائے۔لیکن تحریک ِپاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کیا۔آج بھی پاکستان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں اس لئے یہ پاکستان کا حصہ ہے چند ما ہ پہلے برطانوی پارلیمنٹ میں پہلی با ر کشمیر پربھا رتی قبضہ کے خلاف قرا رداد سامنے آ ئی ا سکے علاوہ برطا نیہ میں آ زا دی کے حق میں کشمیرگرینڈمارچ نکا لا گیا اور مطا لبہ سا منے آ یا کہ جس طر ح سکا رٹ لینڈ کی آ زا د ی کے حوالے سے ریفرنڈم منعقد ہوا اس طر ح کشمیریوں سے بھی انکی رائے جا ننے کیلئے اقوا م متحد ہ کی قرا ر دادو ں کے مطا بق ریفرنڈم کروا یا جائے خود بھارت کے ااعتدال پسند طبقے بھی ماضی قریبی میں اسی مو قف کا اظہا ر کر چکے ہیں۔

جو ن 2014 میں بھا رتی لو گ سبھا کی خا تو ن رکن اور تلنگا نہ صو بے کے وزیر اعلیٰ کی صاحبہ زا د ی “کے کویتا”نے اعترا ف کیا تھا کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ طا قت کے زور پر کیا گیا ہے اس لیے بھارتی سر حدو ں کا نئے سر ے سے تعین کیا جائے اور کشمیریو ں سے انکی رائے معلو م کی جائے اس سے پہلے عا م آدمی پا رٹی کے سر براہ اور بھا رت کے ممتاز قا نو ندا ن “پرشا نت بھوشن ” بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ی اگر بھارت کے سا تھ نہیں رہنا چا ہتے تو انہیں الگ ہو جا نے کا حق فراہم کیا جائے دو سر ی جا نب بھا رت سر کار ی کی تشکیل کر د ہ کشمیر ثا لثی کمیٹی کے سر براہ “ دلیب پنڈ گو نکر”نے بھی کہا کہ پا کستا ن کو بھی با ہر رکھ کر تنازعہ کشمیر کے کسی بھی حل تک کا تصو ر نہیں کیا جاسکتا اس بیا ن پر BJP اور انتہا ہند و طبقا ت کی تنقید جا ری تھی کہ بھارتی پا رلیمنٹ کے عنوا ن با لا یعنی راجیہ سبھا کے رکن اور سا بقہ مر کز ی وزیر قا نو ن”را م جیٹھ ملا نی”نے بھی دلیب پنڈ گو نکر کے خیالا ت کو درست قرا ر دیتے ہوئے گویا BJPاور کا نگر س دو نو ں کے منہ پر تماچہ رسید کیا بھا رتی سرکار اس صو رتحا ل میں خو د کو خا صہ ہرا ساں محسو س کر رہی ہے لیکن اسکے باوجود کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kashmir Or Hamari Kharja Policy is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.