کشمیر پر پاکستان کا موقف!

کشمیر جل رہا ہے۔ آج نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے کشمیری مسلمان ہندوستان کے کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ برہان وانی کشمیر ی لیڈر کی شہادت پر کشمیر کی وادی ایک بار پھر خون میں نہا گئی۔ معصوم اور نہتے بچوں ، عورتوں اور مردوں کی چیخ پکار پوری وادی میں گونج اٹھی۔ بین الاقوامی میڈیا پر کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر جاگ اٹھا

جمعرات 28 جولائی 2016

Kashmir Per Pakistan Ka Muaqaf
نازیہ جبیں:
کشمیر جل رہا ہے۔ آج نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے کشمیری مسلمان ہندوستان کے کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ برہان وانی کشمیر ی لیڈر کی شہادت پر کشمیر کی وادی ایک بار پھر خون میں نہا گئی۔ معصوم اور نہتے بچوں ، عورتوں اور مردوں کی چیخ پکار پوری وادی میں گونج اٹھی۔ بین الاقوامی میڈیا پر کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر جاگ اٹھا۔

پاکستان جو ہمیشہ کشمیر یوں کے خودارادیت کی حمایت میں آواز بلند کرتا رہا ہے۔ ایک بار پھر مستعدی سے کشمیر یوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا لیکن بھارتی وزیر خارجہ نے بڑی چالاکی و ہشیاری سے ایک بار پھر پاکستان کے موقف کو رد کرتے ہوئے واضع بیان دیا کہ نواز شریف کا کشمیر کو پاکستان بنانے کا خواب قیامت تک نہیں پورا ہوگا۔ بھارتی وزیر خارجہ اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یہ بھی کہنے سے نہیں ہچکچائیں کہ پاکستان کشمیر میں تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔

(جاری ہے)

نواز شریف نے وانی کو شہید بنانے کی کوشش کی جبکہ وانی ضرب المجاہدین کا کمانڈر تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ کے بیان میں ایک بات غور طلب ہے کہ بھارت کشمیر میں اپنی جس حکمت عملی پر گزشتہ 7 دہائیوں سے عمل پیرا ہے اس سے ٹس سے مس ہونے کیلئے تیار نہیں۔ آج بھی وہ ان کشمیریوں کو جواپنے حقوق کیلئے آواز بلند کر تے ہیں شدت پسند وں سے تعبیر کرتا ہے۔ آج بھی ہندوستان یہی سمجھتا ہے کہ وہ کشمیر یوں کی قسمت کا مالک ہے۔

آج بھی جمہوریت کا دعویدار ہندوستان کشمیر یوں کو ان کے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں۔ آج بھی وہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔ بات صرف اتنی نہیں کہ بھارت وزیراعظم کے بیان پر ردعمل کا اظہار کر رہا ہے بلکہ بعض ہمارے ملک میں بعض نا قدین بھی وزیراعظم کے بیان کہ ''پاکستان کو اس دن کا انتظار ہے جب کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا" کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اور سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کا بیان محض ایک سیاسی بیان ہے اس کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں یا اس کا تعلق پاکستان کی پالیسی سے نہیں ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان حکومت اور ریاست الگ الگ نہیں بلکہ حکومت پاکستان ، پاکستان کی ریاست کی پالیسی کی عکاس کرتا ہے۔ ریاست ایک جغرافیائی حدود میں واقع ہوتی ہے جبکہ حکومت اس جغرافیائی حدود پر مبنی ریاست کے نظم و نسق کو چلاتی ہے۔

اس لیے درحقیقت حکومت ریاست کی ہی پالیسی کو فروغ دے رہی ہوتی ہے۔پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھارت کو واضح الفاظ میں جواب دیا ہے کہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنانے کا اختیار بھارتی وزیر خارجہ کو نہیں بلکہ استصواب کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کشمیری عوام کرینگے اور اس فیصلے کو پوری دنیا کو تسلیم کرنا ہوگا۔

مثبت تنقید کا حق سب کو ہوتا ہے لیکن اس طرح کی تنقید حکومت اور فوج دونوں کی کشمیر پالیسی اور کشمیر یوں کیلئے کی جانیوالی کوششوں کے منافی ہے۔ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ جو دو طرفہ تعلقات کی بحالی کا کام شروع کیا اس میں پھر ایک بار شگاف آگیا۔ گوکہ ہندوستان ہمیشہ باہمی تعلقات کے فروغ کا ڈھونگ رچاتا ہے لیکن جب ان تعلقات کو عملی جامہ پہنانے کی طرف پیش رفت کی جاتی ہے توہندوستان فوراً اپنے موقف سے ہٹ جاتا ہے اور کوئی نہ کوئی ایسا بہانہ تراشا جاتاہے کہ حالات پھر وہیں کہ وہیں رہ جاتے ہیں۔

بھارت صرف یہ چاہتا ہے کہ پاکستان سے تجارتی تعلقات بہتر ہوں اور کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا جائے یہ کیونکر ممکن ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے کیمطابق کشمیریوں کو حق دیا گیا تھا کہ وہ چاہے تو پاکستان میں شامل ہوں یا ہندوستان میں لیکن ہندوستان نے مکاری سے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کیں اور زبردستی کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنانا چاہا لیکن اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

آج 7 دہائیوں کے بعد بھی ہندستان اپنی اس ہٹ دھرمی کی سوچ پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان اپنے کثیرالاتعداد وسائل آپس کے اختلافات پر خرچ کر رہے ہیں۔ ہندوستان کو یہ بات محسوس کر لینی چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر دونوں ممالک کے تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے۔ میں سمجھتی ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے بہتر کردار کوئی اور نہیں ادا کر سکتا۔

مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی امن پسند پالیسی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جب اس بات پر اتفاق پاکستان اور ہندوستان کی طرف سے کیا گیا تھا کہ کشمیر میں استصوا ب رائے کے ذریعے کشمیریوں کو آزادی کا حق دیا جائے تو اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکام رہا۔مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک اہم سوال پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بھی ہے کہ 1947 سے ابتک پاکستان کتنے موثر طریقے سے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے میں کامیا ب ہو سکا۔

کیا یہ صرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے یا اقوام متحدہ کی بے حسی یا پاکستان کا کاخارجہ پالیسی کے غیر موثر ہونے کا عندیہ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی اند ورنی حکمت عملی اس ملک کی بیرونی حکمت عملی کی آئینہ دار ہے معاشی، سیاسی طور پر ایک مضبوط ملک کی خارجہ پالیسی بھی موثر ہوتی ہے جبکہ ایک کمزور ملک کی خارجہ پالیسی کمزور اور غیر موثر ہوتی ہے۔

ہمیں یہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت قوم کہا ں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اتنے مضبوط ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کر سکیں اور اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ یہاں تو تمام جماعتیں خود کو بااختیار بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دھرنے اور احتجاج کی سیاست نے پاکستان کو معاشی معاشرتی اور سیاسی طور پر کافی نقصان پہنچایا ہے۔
ہمیں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے کشمیر پالیسی پر اس کاساتھ دینا چاہیے اور حکومت اور فوج کی کوششوں کو صفر کرنے کی بجائے ہمیں کشمیر پالیسی کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kashmir Per Pakistan Ka Muaqaf is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 July 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.