لوڈشیڈنگ کا عذاب اور واپڈا کی بدعنوانیاں

واپڈا ایک ایسا نام ہے جیسے ہم پچپن سے جانتے ہیں اور یہ تبدیل ہوکر، Fesco ، Lesco ، Iesco ، Kesco اور پتہ نہیں کیا کیا بن گیا ہے لیکن مسائل کے اعتبار سے یہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا یہ پہلے تھا۔ لوڈشیڈنگ، بریکیج، مینٹی ننس، ریپیئر، فالٹی میٹر، ڈی اُڑ گئی ، ٹرانسفار مر اُڑ گیا، ریڈنگ فالتو ڈال دی ، ریڈنگ کم ڈال دی

بدھ 11 مئی 2016

Load Shedding Ka Azaab
فضل رحیم شہزاد :
واپڈا ایک ایسا نام ہے جیسے ہم پچپن سے جانتے ہیں اور یہ تبدیل ہوکر، Fesco ، Lesco ، Iesco ، Kesco اور پتہ نہیں کیا کیا بن گیا ہے لیکن مسائل کے اعتبار سے یہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا یہ پہلے تھا۔ لوڈشیڈنگ، بریکیج، مینٹی ننس، ریپیئر، فالٹی میٹر، ڈی اُڑ گئی ، ٹرانسفار مر اُڑ گیا، ریڈنگ فالتو ڈال دی ، ریڈنگ کم ڈال دی، ریڈنگ لی ہی نہیں، بل لیٹ ہو گیا، بل آیا ہی نہیں ، بل غلط ایڈریس پر ڈال دیا اور جانے اور کون کون سی خرافات ہیں جو اس دارے میں نہیں اور پھر ہر کام کے لیے دفتروں کے چکر اور کئی چکروں کے بعد ایس ڈی اوصاحب کا ملنا اور پھر منتیں سماجتیں سفارشیں اور دھمکیاں اور پھر بھی خوش کرنے کے لئے رقم کا بندوبست کرنا ہی پڑتا ہے۔


آج کل ایک نیا مسئلہ ہے کہ بل کی تاریخ جو بھی ہو وہ آئے گا دو دن پہلے اور درمیان میں ہوگا چھٹی کا دن ، اگلے دن کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بل جمع کرانے کے احکامات اور ناں جمع کروانے اور لیٹ ہونے پر جرمانہ واجب۔

(جاری ہے)

اگر بل درست کروانے چل پڑتے ہیں تو ریڈنگ کے حساب سے جو اندازے آپ نے لگائے ہوتے ہیں انکا بل کچھ اور ہی بن کر سامنے آتا ہے۔ پہلے 100 یونٹ اگلے یونٹ سب کا حساب عام آدمی کی سوجھ بوجھ سے بالکل ہی بالا تربات ہے۔

غرضیکہ ہر کام ہر بات میں اتنے مسائل ہیں کہ الامان الحفیظ۔ یہ تو کنزیومر کے مسائل ہیں جن لوگوں کے نئے میٹر لگنے والے ہیں ان کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر بل درست کر والیا تو پھر ریوینیوآفس میں انداراج یہ بھی کنزیومر کی ذمہ داری اگر یہ کام بھی نہیں کیا تو اگلے ماہ پھر یہی پریکٹس پھر شروع کردیں۔ پھر سب ڈویژن سے ایک لیٹر جاری کروائیں اور ڈویزژن کے چکر لگائیں۔


ڈویژن سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہیڈ آفس جائیں گے وہاں بھی کوئی بات کرنے سے پہلے فوٹو کاپی کروانے اور ایپلی کیشن دینے کی بات کریں گے۔ درخواست دے کر چلے جائیں عملدرآمد یا مقدر یا نصیب، کام ہو جانے کی صورت میں پھر وہی مشکل کہ انفارمیشن ڈویژن میں نہیں پہنچی پھر چکر یہ چکر ۔ ان ساری باتوں کا مطلب پبلک کی پریشانی ، دنیا بھر میں Customer is Always Right کا مقولہ چلتا ہے مگر یہاں ہر صورت میں کنزیومر ہی گناہگار ہے۔

ارگ کوئی ملازم آپ سے پیار محبت اخلاق سے بات کر بھی لیتا ہے تب بھی سزا آپ ہی کو بھگتنا پڑیگی اور ہر وہ کام جو ادارے کو اپنے وسائل سے حل کرنے ہیں،عامتہ الناس بھاگے پھر رہے ہیں۔یہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے روزگار کی حق عدولی بھی کریں گے اور اپنے کاروبار اپنے آفس میں اپنے افسروں کی جھڑکیاں بھی کھائیں گے یہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔

جب کہ کارکردگی کی یہ صورت حال کہ ہم ان آنکھوں سے بجلی چوروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ساری گرمیاں ایئر کنڈیشننگ انجوائے کر رہے ہیں اور واپڈا ملازمین کی آشیر باد سے نہ کوئی ایکسس بل آتا ہے ، نہ لائن کٹتی ہے، ہر چند کہ یہ معاملات واپڈا افسران کے نالج میں بھی ہوتے ہیں اور وقتاََ فوقتاََ وہ علاقوں کا چکر بھی لگاتے ہیں کوئی شریف اور ذمہ دار آدمی اگر کسی کی شکایت کر بھی دے تو مجرم کے خلاف تو کوئی کارروائی ہو نہیں پاتی البتہ شکایت کرنے والے کا نام چور کو بتا دیا جاتا ہے جس سے اس کی ڈائرکٹ دشمنی ہو جاتی ہے۔

محکمے کی دشمنی تو ہوتی نہیں بندہ بیچارہ کشمکش میں پڑجاتا ہے کہ یہ وکیل ، وڈیرہ،ایم این اے، ایم پی اے، فیکٹری والا ، ایمبر ائیڈری مشین والا اب اس کے خلاف کیاحکمت عملی اختیار کریگا اور اس کے ساتھ کیا سلوک کریگا ، اللہ جانے، حتیٰ کے محکمہ کے وہ لوگ جو اس سارے نظام میں ملوث نہیں ہیں وہ بھی یہ سب کچھ دیکھتے ہیں مگر کسی قسم کی کارروائی میں حصہ ہی نہیں لیتے۔

محکمہ کے اپنے ملازمین بجلی کے یونٹوں کی چھوٹ ہونے کے باوجود زائد بجلی چوری کرنے کو اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں اور برابر کے شریک رہتے ہیں۔ اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک ملازم نے دوطرفہ کنکشن نہ لگایا ہوا ہو۔ گویا پبلک جو مین ریونیو کنٹری بیوٹر ہے ان سہولتوں سے فیضیاب ہو سکے اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ لوگ مال خرچ کرنے کے باوجود ان ملازمین اور محکمے کے احسان مند اور مشکور ہی رہتے ہیں اور ڈرے سہمے بھی کہ کب کوی میٹر ریڈریا لائن میں، میٹر ڈیفیکٹو کا نوٹس دے جائے یا محکمہ میں لکھ کر بھیج دے بس پھر اس کا کوئی حل نہیں۔

آپ ان سے لاکھ کہیں کہ ی میٹر ٹھیک ہے باہر لگا ہوا ہے ،ہمارا اس میٹر میں ماسوائے استعمال کے کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ محکمہ نے اپنے انٹرسٹ میں میٹرباہر لگوائے ہیں ان کے ذمہ دار ہم کیے ہو سکتے ہیں کیا اس میٹر کی حفاظت کے لیے ہمیں ایک سیکیورٹی گارڈ بھی خود رکھنا پڑے گا۔ اگر آپ کا ٹرانسفارمر خراب ہوگیا ہے تو یہ اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جاتاجب تک کسی بڑی سڑکی پر جا کر پبلک سڑک بلاک نہ کرے، مارکیٹ کمیٹی والے ہڑتال کر کے میڈیا کو نہ بلالیں، خراب ٹرانسفارمر کو ٹھیک کرنے کے لیے محکمہ کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا پہلے سے خراب ٹرانسفار مرز کا رش ہوتا ہے اور کرتے کرتے یہ ٹرانسفارمر کسی پرائیوٹ ٹھیکیدار سے درست کروایا جاتا ہے جس پر کافی زیادہ خرچہ وصول کیا جاتا ہے اور یہ ٹرانسفارمر ورکشاپیں افسران کی چین کا حصہ ہوتی ہیں ۔

وافر مال خرچ کرنے والوں کو فوری طور پر ٹھیک کر کے لگا بھی دیا جاتا ہے جبکہ پبلک لیول پرجہاں کنٹری بیوشن ہو رہی ہوتی ہیں ٹاوٹ کے ذریعے کنٹری بیوشن کی تکمیل کی کنفرمیشن تک درست نہیں ہوتا۔ ماسوائے صاحب اقتدار حضرات کے کارندے ہونے کی صورت میں فوری طور پر ٹرالی لگا کر مداکر دیا جاتا ہے۔ کو آپریٹو سو سائیٹز میں یہ صورت حال اس سے بھی کئی گناہ زیادہ خراب ہے۔

ان سوسائٹیز کی ایڈمنسٹریشن سے مل کر ٹرانسفارمر ٹھیک کرنے کے لیے فی گھر کنٹری بیوشن کی جاتی ہے جو ہزاروں روپے تک ہوتی ہے اور اس طرح سے اکٹھی ہونے والی رقم کی سوسائٹی انتظامیہ بھی حصہ دار ہو جاتی ہے۔
لیسکو میں نئی بھرتیوں کے لیے لوگوں سے درخواستیں NTS کے ذریعے سے وصول کی گئیں، ان بیروزگاروں سے ٹیسٹ کی فیس بھی اکٹھی کی گئی اور ٹیسٹ مکمل ہونے کے بعد لوگوں کے رزلٹ کمپائل کرنے کے بعد یہ تمام ریزلٹس متعلقہ محکموں کو بھجوا دئیے جاتے ہیں اور پھر محکمہ ان منتخب لوگون میں سے بیروزگارون کی بھرتیاں کرتا ہے میرے کچھ جاننے والے لوگوں نے بتایا کہان کے ریزلٹس میں نام تھے اور وہ کئی ماہ سے اپنے اپوائٹمنٹ لیٹر کا انتظار کر رہے ہیں مگر پہلے تو ایسا کو ئی عمل پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا اور وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سامنے آئی کہ ان بھرتیوں میں کرپشن کے معاملات سامنے آنے کی وجہ سے یہ تمام بھرتیاں کینسل کر دی گئی ہیں۔

اب آپ دیکھیں کہ اس محکمہ NTS کا کیا سارا عمل دخل، انتخاب اور میرٹ اسکی دھجیاں نہیں اڑا دی گئیں۔ کیا ادارے کا سارا میرٹ دھول میں نہیں اڑا دیا گیا، کیا اپنے ساتھ ساتھ لیکسو نے اس ادارے کی ساکھ بھی مشکوک نہیں بنا دی ، کیا لوگ اس سب کے باوجود بھی اس ادارے پر اعتماد کر سکیں گے اور اگر ابھی بھی کر رہے ہیں تو کیا یہ ادارہ بھی انہی اقدام سے اپنی وقعت اور حیثیث کھو نہیں بیٹھے گا؟ فیصلہ آپ خود کریں ، جہاں تک لوڈ شیڈنگ کا تعلق ہے تو یہ لفظ ہماری زندگیوں میں اس طرح شامل ہو چکا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی شاید اذان سے پہلے اس لوڈشیڈنگ کا نام اور اس کا اثرورسوخ دیکھ لیتا ہے۔

اتنے وسائل اتنی مین پاور عالمی منڈیوں اور ملکی منڈیوں میں انتہائی گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں کے باوجود لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو پا رہی۔ اس سے پہلے ہر سال گرمیوں کے موسم میں یہ بات سامنے آتی تھی کہ اتنے گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو گئی مگر ہوتی ہمیشہ اس سے کہیں زیاہ تھی۔پھر لوڈشیڈنگ کا کوئی شیڈول ہی نہیں ہے کسی وقت بھی بغیر اطلاع کے ان اوقات میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں سکول جانے ، آفس جانے، یونیورسٹی جانے ، سونے کا کسی طرح بھی اور کسی وقت خیال نہیں رکھا جاتا۔

جب دل چاہے وقت تبدیل اور کپڑے استری ہونے سے پانی کی موٹر چلنے تک سے یک لخت محروم کر دیا جاتا ہے۔ اور انسانی زندگی کا سار اڈھانچہ اچانک تلپٹ کر دیا جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ لوڈشیڈنگ کے وقت میں لائٹ نہیں ہوتی اور اس کے بعد مینٹینس کا وقت اکثر شروع ہو جا تا ہے اور سارا سارا دن لوگوں کو لائٹ سے محروم کر دیا جاتا ہے جس سے سب زیادہ بڑے شہروں میں بھی خاص طور پر وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کے گھروں میں سرکاری پانی بورنگ والے پمپ سے لیا جاتا ہے ان سارے حالات میں ایک طرف تو بجلی کی پیشین گوئی کی جارہی ہے دوسری طرف پوری قوم کو UPS پر لگایا ہوا ہے اور اگلا راستہ سولر پاور کا دکھایا جا رہا ہے۔

اللہ جانے یہ بجلی آئے گی بھی یا نہیں اور اگرآنے والی ہے تو لوگوں کا مال اس طرح سے UPS اور سولر پر تو ضائع نہ کروائیں۔ خدا کے لیے اس قوم پر رحم فرمائیں ۔ یہ تمام باتیں جو آپ کے گوش گزار کی جارہی ہیں تقریباََ سبھی افسران منسڑ فارواٹر اینڈ پاور ، چیف آفیسر لیسکو اور تمام افسران کے نوٹس میں ہیں وہ اور اس طرح کے تمام افسران اس کا کیا سدباب کر رہے ہیں؟ جو پبلک کو نظر آتا ہے وہ ان لوگوں کو کیوں نظر نہیں آتا۔

آج ستر سال ہونے کو ہیں ہم اس کرپشن کے عفریت سے باہر ہی نہیں نکل پائے۔ بڑے بڑے معاملات جو احتساب میں چل رہے ہیں ان کا تو کیاہی کہنا ، یہ ساری صورت حال ادارتی طور پر بھی اس طاقتور حکومت کی اس قدر کمزور صورت حال کی نشان دہی کر رہی ہے۔ کہ الامان اولحفیظ۔ اسمبلیاں، اسٹیبلشمنٹ ، بیورو کریسی، عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ سب کے سب محض تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور کوئی کارروائی کرنے کی کیفیت میں ہی نظر نہیں آتے۔ اللہ ہم لوگوں کا پرسان سال ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد ہمیں اس گھمبیر صورت حال سے نکالے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Load Shedding Ka Azaab is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 May 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.