میرے عزیز! کونسی شریعت؟

میرے عزیز! کونسی شریعت؟سینکڑوں سکولوں کو اڑانے والی شریعت یا پھر سر قلم کرنے کے بعد ان سے فٹ بال کھیلنے کی شریعت؟ عزیزم ! کونسی شریعت ہے جسکا نفاذ کر دیا جائے

Ajmal Jami اجمل جامی پیر 3 فروری 2014

Mere Aziz Kon Si Shariat
مذاکرات کے کنویں میں پھر ڈول ڈالا گیا ہے، معلوم نہیں کہ حکومتی مذاکرات کار طالبان کی مذاکرات کی کمیٹی سے کیا حاصل کریں گے اور انہیں بدلے میں کیا پیش کریں گے۔ مان لیتے ہیں کہ دونوں جانب سے کمیٹیاں مذاکرات کی میز پر مل بیٹھتی ہیں اور مذاکرات کا باقاعدہ آغاز بھی ہو جاتا ہے تو کیا حکومت طالبان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی پوزیشن میں ہے یا دہشت گرد پاکستانی ریاست اور آئین کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے اور پرامن زندگی گزارنے کو تیار ہو جائیں گے۔

حکومتی کمیٹی کو طالبان کے مطالبات سننا پڑیں گے اور اگر طالبان نے سر ِدست 'نفاذ شریعت' کا مطالبہ کر دیا تو پھر اس کا توڑ کیسے کیا جاوے گا؟
میرے عزیز! کونسی شریعت؟سینکڑوں سکولوں کو اڑانے والی شریعت یا پھر سر قلم کرنے کے بعد ان سے فٹ بال کھیلنے کی شریعت؟ عزیزم ! کونسی شریعت ہے جسکا نفاذ کر دیا جائے تو طالبان بخوشی ہتھیار ڈالتے ہوئے پرامن شہری بن جائیں گے؟مولانا عبدالعزیز، جن کا نام طالبان نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی نامزد کمیٹی میں شامل کیا ہے یہ حضرت وہی ہیں جو پچھواڑے سے 'شریعتی' لبادے میں بھاگنے کی کوشش میں پکڑے گئے تھے۔

(جاری ہے)

فرمانے لگے کہ چونکہ طالبان کا سب سے بنیادی مطالبہ ہی شریعت کا نفاذ ہے لہذا کیا ہی اچھا ہو کہ "حکومت مذاکرات کے آغاز سے پہلے ہی شریعت کا نفاذ کر دے، مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں رہے گی"۔ ناچیز آپ جناب کی اس تجویز پر دم بخود ہو ا چاہتا ہے، سرا نہیں مل رہا کہ حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب نے آخر کس شریعت کے نفاذ کی بات کی ہے،آیا یہ شریعت سعودی مارکہ ہوگی یا ایران ساختہ؟ شریعت کے نفاذ سے پہلے کیا موجودہ سماجی ڈھانچے کو عرب بدوی معاشرے میں تبدیل کیا جائے گا یا شرع کی صدیوں پرانی تشریحات کی جھاڑ پونچھ کے بعد انہیں نئی جلد کے ساتھ بازار میں خریداروں کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔


شنید ہے کہ طالبان کی جانب سے دیگر مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہو گا کہ وزیرستان سے فوج کے انخلا کو یقینی بنایا جائے۔خطے کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں کیا ریاست کسی طور بھی ان علاقوں سے فوجی انخلا کی متحمل ہو سکتی ہے؟ اور فوج کے انخلا کے بعد کیا قبائلی علاقہ دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں کی نرسری نہیں بن جائے گا؟؟
پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید طالبان قیدیوں کی رہائی کا فوری مطالبہ بھی میز پر پیش کیا جائے گا۔

اس پر ریاستی عمل داری کہاں جا کر ٹھہرے گی یقناً سوچنے کا مقام ہے۔ اگر انہیں رہا کر دیا گیا تو دوبارہ ہتھیار اٹھانے سے روکنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی؟
یہ چند ایک بنیادی مطالبات ہیں جن سے درجنوں ذیلی مطالبات بلواسطہ یا بلاواسطہ جڑے ہوئے ہیں اور یہ نکات ہر گز مخفی نہیں بلکہ یہ معاملات تو بالکل سامنے کی باتیں ہیں؛ بالفرض مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو چالیس سے پچاس ہزار شہادتوں کی 'شرعی' حیثیت کیا ہو گی؟؟ کیا طالبان کو تمام خون معاف کر دئے جائیں گے؟؟ علمائے اکرام کو ابھی سے اس بارے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرلینا چاہیے۔


اور تو اور مذاکرات کس سے کیے جائیں گے؟؟ درجنوں گروپس ہیں جن میں سے سب سے مضبوط محسود قبائل ہی ہیں، کیا تمام کو راضی کر لینا ممکن ہو پائے گا؟ مذاکرات کے دوران نادیدہ قوتوں کے ہرکاروں نے اگر دہشت گردی کی تو کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ ایک دہائی گزر گئی ریاست دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی اختیار کرنے سے قاصر رہی ہے، اب کے بار ان مذاکرات کے لیے کیا ہوم ورک مکمل ہے؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کی وجہ سے ایک آدمی بھی مذاکرات کے راگ سن سن کر کیفیوز ہو رہا ہے۔

حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہو گی۔
مذاکرات کے عمل کی شروعات کے ساتھ ہی ان دنوں موسمی تجزیہ کاروں کی آرا ہر اہم معاملے پر 'فی سبیل اللہ' دستیاب رہتی ہے، ہر ایک کے پاس اپنی 'راکٹ سائنس ہے' جس کی بنیاد پر یہنام نہاد نبض شناس دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کی اہلیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں۔ اور اب جب کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے تو اس ساری صورتحال پر تقریبا تمام لکھاریوں اور تجزیہ کاروں کو کھنگال لیا، استاد نصرت جاوید اور محترم سلیم صافی کے علاوہ کسی نے بھی ڈھنگ کی بات نہیں کی۔

یوں لگتا ہے جیسے کوئی کچھ نہیں جانتا یا پھر کوئی کچھ کہنا نہیں چاہتا۔
طالبانی کمیٹی تو ایک سیاسی 'سٹنٹ' سے بڑھ کر کچھ نہیں لگتی۔ آخر یہ تمام ارکان کوئی بھی موثر فیصلہ لینے میں کس حد تک خود مختار ہوں گے۔ رہ گئی بات حکومتی کمیٹی کی، تو نا جانے جناب عرفان صدیقی صاحب کو کاہے کا 'چسکا' ہے جو وہ بلا ناغہ 'پی آئی ڈی' سے براہ راست گھنٹے بھر کا 'خطبہ' جاری کر دیتے ہیں، معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ان تمام اراکین کو انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہو ئے بالخصوص میڈیا پر بیان بازی سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے تاکہ قومی سلامتی کے حساس امور متنازعہ نہ ہو جائیں۔

اگر کسی مثبت پیش رفت سے عوام کو آگاہ رکھنا انتہائی ضروری ہو تو پانچ منٹ کی پریس بریفنگ جو کہ پالیسی گائیڈ لائن کے وضع کردوہ اصولوں پر مبنی ہو پر ہی اکتفا کرنا چاہیے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں تو پالیسی گائیڈ لائن ہی نہیں ہے۔
اس سارے گورکھ دھندے میں جناب عمران خان صاحب پر خوب آن پڑی ہے کپتان صاحب کا پہلے اصرار تھا کہ حکومتی کمیٹی کا حصہ بنیں، اب طالبان نے جناب کا نام اپنی تجویز کردہ پانچ رکنی کمیٹی میں شامل کر دیا ہے، اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ طالبان شوری نے اس بارے خان صاحب سے کسی قسم کی کوئی مشاورت تک بھی نہ کی۔

شاید دونوں دھڑے پہلے سے ہی 'آن بورڈ' ہیں ، معلوم نہیں اب ان کی گیند بازی اور بلے بازی کا رخ کس طرف کو ہوگا اور وہ کس فریق کے حامی ہوں گے۔ واللہ عالم!
مذاکرات کے غلغلے میں ایک اہم سوال نقار خانے میں طوطی کی صدا بن کر رہ گیا ہے؛اگر پچاس ہزار پاکستانیوں کی جانیں لینے والوں سے خلوص دل سے مذاکرات کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے تو پھر مٹھی بھر ناراض بلوچوں کو کیوں نہیں اپنایا جا سکتا؟ کیا وہ پرائے ہیں؟ وہ تو کسی 'خود ساختہ' شریعت کے بھی متقاضی نہیں بلکہ اکبر بگٹی تو یہ کہتے کہتے کوچ کر گئے کہ اپنا روپیہ اپنے پاس رکھو ہمیں ہماری چونی دیتے جاو۔

بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا لائحہ عمل بھی ریاستی اداروں کو وضع کرنا ہوگا۔
مذاکرات کی بساط تو بچھ گئی ہے اور ایسے میں اب امن کی دعا کی جانی چاہیے لیکن ریاست کو یاد رکھنا چاہیے کہ
نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی
جو قوم دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں
اب قوم کسی نظامِ عدل و انصاف کو قبول نہیں کرے گی، اب وقت آ گیا ہے کہ آئین پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے ریاست کے ڈھانچے کو مضبوط کرتے ہوئے غیر ریاستی عناصر کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے، وگرنہ ہتھیار اٹھانے والوں سے انہی کی لہجے میں بات کرنا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mere Aziz Kon Si Shariat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 February 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.