مینار پاکستان سے آزادی چوک تک

مینار کی تعمیر کیلئے نصرالدین مرات خان نے خدمات بلامعاوضہ پیش کیں

بدھ 23 مارچ 2016

Minar e Pakistan Se Azaadi Chauk Tak
راحیلہ مغل:
14اگست 1947کے دن پاکستان بن گیا۔ وہ پاکستان جس کاقیام لاتعداد قربانیوں اور طویل جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آیا۔ رفتہ رفتہ آنے والا ہردن اس وطن کے باسیوں کا مشکلات سے نبرد آزما ہونا سکھاتا گیا۔ مسایل کے بادل چھٹنے لگے اور سکھ کی دھوپ سنہری کرنوں نے عوام الناس نے دلوں کو منور کرنا شروع کیا تو ایک بار پھر عوام الناس میں ایک نئے جذبے کے خیال کو جہاں لفظوں کا جامہ پہنایا گیا اس جگہ کویاد گار کادرجہ دیاجائے۔

چنانچہ محب وطنوں نے ایک بار پھر سرجوڑے اور باقاعدہ ایک قرار داد بلدیہ لاہور کے ایدمنسٹریٹر ملک عبدالطیف خان نے 23مارچ 1959ء کو کارپوریشن کے اجلاس میں پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔ اس قرار داد میں مطالبہ کیاگیا کہ 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں ہونے والے جلسے کی شان اور یاد زندہ رکھنے کیلئے ایک یاد گار تعمیر کی جائے۔

(جاری ہے)

اس قرار داد کو عوامی حمایت بھی حاصل تھی چنانچہ صدرایوب خان نے بھی اس خیال کی تائید کی اور یاد گار کے لئے ڈیزائن پر غور شروع ہوا۔

جون 1959ء میں کارپوریشن کو ابتدائی طور پر جوڈیزائن موصول ہوئے ان میں سے کوئی بھی ڈیزائن پسند نہ آیا۔ 19جولائی 1959ء کو لاہور کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر ملک عبداللطیف خان نے ایک پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا یوم پاکستان کی مجوزدہ یاد گار کے پروگرام کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اس پر اب جلد ہی کام شروع ہوجائے گا۔ یادگار کی تعمیر کے آغاز کیلئے منٹوپارک (جسکانام بدل کراقبال پارک رکھ دیاگیا) میں صنعتی میلوں کے انعقاد کا سلسلہ بند کردیا گیا۔

اسکے بعد یہ جگہ یادگار کمیٹی کے سپرد کردی گئی۔ 19مارچ 1960ء کو یادگار کاسنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ یہ مبارک کام مغربی پاکستان کے گررنر اختر حسین کے دست مبارک سے ہوا۔ اس موقع پر یادگار ایک فٹ 3 اونچا لکڑی کاماڈل بھی نمائش کے لئے رکھ دیا گیا تھا۔ یہ ماڈل کچھ یوں تھا کہ اس میں یادگار عمارے ایک بلال نماسبزہ زار کے وسط میں ستارے کی شکل کے چبوترے پرایستادہ تھی۔

یہ وسیع ہال تھا جہاں جلسے منعقد کروائے جاسکتے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک لائبریری اور پھر بلندمینار بھی تھا۔ یہ ایک خوبصورت ماڈل تھا مگر اس پر لاگت زیادہ آتی تھی چنانچہ اسے ترک کردیا گیا۔ 2نومبر 1962ء کو ایک سادہ ساڈیزائن منظور کرلیاگیا جسے مینارپاکستان کانام دیا گیا۔ اسکا نقشہ روس کے ترک نژاد مسلمان ماہر آرکیٹکٹ نصرالدین مرات خان نے تیار کیا تھا۔

مینار پر تاریخی عبارات اشعار اور آیات قرآنی کے انتخاب کی ذمہ داری میاں بشیر احمد مدیر” ہمایوں“ اور مولانا صلاح الدین احمد (مدیر” ادبی دنیا“) کوسونپی گئی۔ مینار کی تعمیر کے سلسلے میں ایک اجلاس مرات خان کے گھر ” پتھروں والی حوایلی “ میں ہوا۔ جہاں اس یاد گار کی تعمیر کیلئے فنڈ کی رقم کا خاطر خواہ انتظام نہ ہوسکا۔ اس موقع پر نصرالدین مرات خان نے مینار کی تعمیر کیلئے اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کیں۔

انہوں نے مینار کے ڈیزائن اور تعمیر کی فیس (جو تقریباََ 2لاکھ 52ہزار بنتی تھی) نہ لی اور اسے مینار کی تعمیر کیلئے بطور عطیہ دے دیا۔ فنڈ کی کمی کے باعث تعمیراتی کام متاثر ہوتا رہا اور مینار پاکستان کے ڈیزائن میں تبدیلی آتی رہی۔ رفتہ رفتہ تعمیر کا مرحلہ آیااور اس جگہ مینار بنانے کا فیصلہ کیا گیا جہاں23مارچ کا جلسہ ہوا تھا اس جگہ کی نشاندہی میاں امیرالدین نے کی۔

فنڈ کا انتظام کرنے کیلئے پاکستان اسمبلی نے سینماکے ٹکٹوں اور گھڑدوڑ پر ٹیکس لگانے کا مسود قانون منظور کرلیا۔ بہرحال کئی اتار چڑھاؤ دیکھنے کے بعد یہ منصوبہ پروان چڑھا اور 96 فٹ 6انچ اونچا مینار 31اکتوبر 1968ء کو مکمل ہوگیا۔ اسکی تعمیر میں عبدالرحمن خان نیازی‘ جمال الدین اور سینئر آکیٹکٹ اعجاز حسین کا ظمی اور اقبال علی اسماعیلی نے نمایاں کردار ادا کیا۔

مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیشتر سامان پاکستانی ہے۔ سنگ سرخ اور سنگ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیاگیا ہے۔مینار 180فٹ لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے اسکی 5گیلریاں اور 20 منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری 30فٹ کی اونچائی پر ہے مینار پر جانے کیلئے 334سیڑھیاں ہیں جبکہ یہاں لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ تعمیراتی سامان بھی اس انداز میں استعمال کیاگیا ہے کہ یہ بذات خود جدوجہد آزادی داستان بیان کرتا ہے اس کے ابتدائی موٹروے کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے۔

جواس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں کٹھن مراحل طے کرکے حاصل کیاگیا تھا۔ اس سے اگلے چبوترے کی تعمیر پر قدرے ملائم پتھر استعمال کیاگیا جس سے مسلمانوں کی حالت میں بہتری کی عکاسی ہوتی ہے۔ جوں جوں بلندی کی طرف جائیں ملائمت میں اضافہ ملے گا جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ پاکستان بتدریج ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔

جبکہ مینار کے آخری سرے پر چمکنے والا گنبداس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان عالم اسلام میں خوب روشن مقام رکھتا ہے۔ عوام چاہتے تھے کہ مینار کاافتتاح دونوں حصوں کے سربراہان یا صدر پاکستان کریں۔ اس لئے فیصلہ ہوا کہ افتتاح صدر ایوب خان کریں گے۔ تاہم ملک کے سیاسی حالات کی ابتری کی وجہ سے افتتاح کی نوبت نہ آسکی اور مینار کو بغیر افتتاح کے 23مارچ 1969ء کے روز کھول دیاگیا۔

مینار پاکستان کا انتظام ابتدا میں ریزرویشن میموریل کمیٹی کے سپردتھا۔ جون 1982ء سے اسکا انتظام وانصرام لاہور کے ترقیاتی ادارے سے LDAکے سپرد کردیا گیا ہے۔ اس ادارے نے یہاں مرحلہ وار بہتری کے پروگرام بنائے۔ مینار میں موجود غیر ضروری تعمیرات وتجاوزات کاخاتمہ کیا گیا اسکے علاوہ بچوں کے کھیلنے کیلئے پارک اور جھیل بنائی گئی۔ اقبال پارک میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہوتی رہیں مگر موجودہ حکومت نے ایک بڑی تبدیلی کا منصوبہ بنایا کہ منٹو پارک کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔

منٹو پارک کے قریب شاہراہ پاکستان اور آزادی چوک پرفلائنگ اوور کامنصوبہ منظور کیا۔ اس چوک کا نام فلائنگ اوور آزادی چوک میں رکھ دیاگیا۔ اس منصوبے پر 5ارب 35کروڑ روپے لاگت آئی۔ کئی پاکستانی دور دراز شہروں سے اس شہر کی سیر کرنے آتے ہیں کیونکہ اس شہر میں ہماری آزادی کانشان ہمارا عظیم قومی شاہکار موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Minar e Pakistan Se Azaadi Chauk Tak is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.