پاکستان کیوں ناگزیر تھا

قیام پاکستان کے حوالے سے لکھے گئے ناول ” دلاری“ کے بارے میں تاثرات

ہفتہ 13 اگست 2016

Pakistan Kiun Naguzeer Tha
اعتبارساجد:
نسل کو بار بار یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کیوں معرض وجود میں آیا۔ اسی مقصد کے پیش نظر میں نے ناول ” لادری“ تحریر کیااور اسے تحریر کرنے سے پہلے پورے ایک عرصے تک متعلقہ موضوع سے متعلق کتب و رسائل، جرائد، گزیٹئرز اور مستندتاریخ پاک وہند کا مطالعہ کیا۔ اسے ” پیسچ ٹوانڈیا“ سے ٹرین ٹوپاکستان“ تک کے درمیانی عرصے میں انگریزی یااردومیں جو بھی مواد میسر آیا اُس سے استفادہ کیا۔

جاگیرتی“ اور بیداری“ کے علاوہ گاندھی اور جناح رحمتہ اللہ علیہ پر بنی ہوئی فلموں اور دستاویز ی معلومات کا بغور جائزہ لیااور اس نتیجے پر پہنچا کہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ بالکل فطری اور حقیقی تھا۔

(جاری ہے)

یقینا پاکستان ناگزیرتھا ہے اور رہتی دنیا تک تمام عالم اسلام کیلئے ناگزیر رہے گا۔ یہ دنیا کے پہلے فلسفی شاعر کاخواب تھا جو اس زندگی میں دیکھا اور دنیا سے اس رخصت ہونے کے کئی برس بعد اس خواب نے تعبیر کاروپ دھارا۔

ناول کابنیادی کردار دلاری ہندو بیوہ اور یتیم ودھوا (بیوہ) ہے جو اپنے چھوٹے سے قصبے میں ا پنے دھری بھائیوں “ کے مکر وہ کردار سے نالاں ہو کر بالآخر ایک رحم دل ہندو سیٹھ کے گھر ملازمہ بن جاتی ہے ان کے سودا سلف کے لئے اکثر اسے بازار جانا پڑتا ہے چونکہ وہ جوان اور خوبصورت ہے اس لئے قدم قدم پر اس کے اپنے معاشرے کے سانپ اور بچھو اسے ڈسنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حتیٰ کہ پروہت پنڈت ہری لال شرما جیسے غلیظ اور مکروہ لوگ بھی اسے اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت برصغیر پربرٹش راج تھا۔ اقتدار کے نشے میں بدمست ایک سارجنٹ ولسن نے اس کی آبرولوٹ لی۔ پنڈت نے اس مظلوم لڑکی کی مدد کرنے کے بہانے اسے سیٹھ کے گھر سے اس ودھوا آشرم میں منتقل کروادیا جو اس کے زیر اہتمام تھا۔ یہاں صرف اس کی چلتی تھی۔

وہ وہاں مقیم بے آسرا عورتوں کی بے عزتی کا عادی تھا۔ دلاری کو بھی اسے نے اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کی مگر جب وہ اس کے جال میں نہ آئی تو اس نے ڈرامائی انداز میں سارجنٹ ولسن کے قتل کے الزام میں اسے جیل بھجوادیا۔ یہاں راجندچوپڑہ جو اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور دلی کے کسی اخبار کاورکنگ جرنلسٹ تھا اس نے دلاری کو بچانے کے لئے اپنے قصبے سے دلی اور پھر دلی سے امر تسر کارخ کیا تاکہ اصل قاتل کا سراغ لگایا جاسکے۔

سراغ کے بعد حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے اسے ثبوت درکار تھے۔ یہ ثبوت جب ڈرامائی انداز میں اس نے حاصل کرلئے تو ریذیڈنٹ تک پہنچایا اور ثبوتوں کے ساتھ تمام معاملہ کرنل کمانڈنٹ کے سامنے رکھ دیا۔ اگلے روز گرفتاریاں عمل میں آگئیں جن میں پنڈٹ ہر دیال شرما کے علاوہ اس کی رکھیل رجنی بھی شامل تھی۔ دلاری کو باعزت بری کردیا گیا۔ اسے کچھ روز ریٹائرڈسیشن جج دیوان صاحب کے گھر رکھا گیا تاکہ اسے جس قدرذہنی اور جسمانی اذیت پہنچی ہے وہ رفع ہوسکے۔

جب اس کی ذہنی بحالی کا عرصہ مکمل ہوگیا تواجازت دی گئی کہ وہ جہاں جانا چاہے جاسکتی ہے باہر نکلنی تو راجندچوپڑہ اس کا منظر تھا دلاری کو بے حد خوشی ہوئی مگر جب وہ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر کچھ دیرچلی توراجندر چوپڑہ نے یہ کہہ کر اُس کے سارے سپنے چکنا چور کردئیے کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے۔ دلاری اتنی دلبر داشتہ ہوئی کہ گاڑی سے نکل کر اُس نہر کے پل کی طرف بھاگی جس پر سے گزر کرگاڑیاں عموماََ دلی کی طرف جاتی تھیں۔

اس نے بے حدملال اور مایوسی کے عالم میں نہر میں چھلانگ لگانی چاہی مگرعین وقت پر دو مضبوط بازوؤں نے اسے تھام لیا۔ یہ بیرسٹرایازالدین احمد کے بازو تھے جو اسی کے قصبے کا بڑا وکیل تھااور ایک کیس کے سلسلے میں دلی جارہاتھا۔ دلاری نے بھی ضد کی کہ وہ اس کے ساتھ دلی جائے گی اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس قصبے کو چھوڑدے گی جہاں اس نے جواں عمری میں بیوگی اور یتیمی آبروریزی اور جیل کی صعویتیں برداشت کی تھیں۔

ایاز نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ بضدرہی کہ اس کے ساتھ دلی جائے گی۔ ایاز اپنے قصبے کا آسودہ حال کنوارا اور وجیہہ وشکیل بیرسٹر تھا اور جب بھی دلی جاتا اپنے والد مرحوم کے بچپن کے دوست حاجی عطروالے کے پاس ٹھہرتا۔ مجبوراََ دلاری کوحاجی صاحب کے گھر لے گیا اور گھر کی خواتین کے حوالے کردیا۔اُن کا نرم مہربان اور مشفق سلوک دیکھ کردلاری بے حد متاثر ہوئی۔

سب جانتے تھے کہ وہ ہندولڑکی ہے مگر کسی کے خلوص اور محبت میں فرق نہیں آیا۔ دلاری نے جب بچوں کوحافظ صاحب سے روزانہ قرآن پڑھتے دیکھا تو خود بھی ان کے قریب بیٹھنے لگی۔ بالآخر اس نے گھر کی خواتین کو مجبور کرنا شروع کیا کہ وہ اسے کلمہ پڑھائیں اور اپنے دین میں شامل کرلیں۔ اسے ایاز کے پختہ کردار شائستگی اور شرافت نے اس قدر متاثر کیا کہ اپنی مرضی سے مسلمان ہو کر اس نے ایاز سے شادی کی لی۔

برصغیر اس وقت ایسے آتش فشاں پہاڑ کی طرح تھا جو کسی بھی وقت آتشیں لاوااگل سکتا تھا۔ ارگرد فسادات شروع ہوچکے تھے اور کسی بھی لمحے یہ سلسلہ دلی میں بھی شروع ہوسکتا تھا اور اس کی بنیاد یہ ہوتی کہ ایک ہندولڑکی نے مسلمان ہوکرایک مسلمان سے شادی کرلی ہے۔ ایاز نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے حاجی صاحب کے خاندان پرکوئی مصیبت نازل ہوچنانچہ اس نے سامان سمیٹا اور دلاری سمیت پاکستان کا رخ کیا۔

دلی سے لاہور تک کا سفر ہی دراصل پاکستان کے سفر کی داستان ہے جسے میں نے ایک درد مند قلمکار کی حیثیت سے تحریر کیا ہے۔ جس نے بھی اسے پڑھا مجھے تحسین کے پھول اور تحائد پیش کئے جس نے نہیں پڑھا میں اسے یہی کہہ سکتا ہوں کہ اسے میرے لئے نہیں پاکستان کی خاطر ضرور پڑھ لے تا کہ جان سکے کہ پاکستان کیوں ناگزیر تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Kiun Naguzeer Tha is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.