پاکستان اور ایران کے تعلقات

ایران کے عظیم مدبر اور اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے حالیہ دورہ پاکستان میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا۔” ایران کے پاکستان اور بھارت دونوں سے برادرانہ تعلقات میں مگر ایران پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا“۔

پیر 4 اپریل 2016

Pakistan Or Iran Taluqat
نعیم قاسم
ایران کے عظیم مدبر اور اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے حالیہ دورہ پاکستان میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا۔” ایران کے پاکستان اور بھارت دونوں سے برادرانہ تعلقات میں مگر ایران پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا“۔ ایران اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات کی منطقی وجوہات کی مستحکم بنیادیں صدیوں پرانے تاریخی‘ تہذیبی‘ مذہبی اور ثقافتی رشتوں پر استوار ہیں اور ایک طویل 805 کلو میٹر لمبی مشترکہ سرحد نے بھی دونوں ممالک کو ہمسائیگی کے رشتوں کی لڑی میں پرو کر رکھا ہوا ہے۔

چونکہ ایران کے صدر حسن روحانی ایک عملیت پسند رہنما ہیں جنہوں نے جوہری معاہدے پر امریکہ‘ روس اور پانچ یورپی ممالک سے پیچیدہ مسائل کو بات چیت سے حل کرکے ایران کی معاشی مشکلات کو حل کرنے کیلئے ایک اہم سنگ میل کی بنیاد رکھ دی ہے۔

(جاری ہے)

اب وہ ایران کی معاشی ترقی کیلئے پاکستان اور ہندوستان دونوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔

ہندوستان چاہ بہار کی بندرگاہ پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، اسی وجہ سے ایران کا گیس پائپ لائن منصوبہ تینوں ممالک کے درمیان تھا مگر ہندوستان امریکہ کے دباوٴ پر اس سے دستبردار ہو گیا۔ ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے۔” پاکستان کی سلامتی اور ترقی ایران کی سلامتی اور ترقی سے مربوط ہے لہٰذا دونوں ممالک کو معاشی ترقی کیلئے دہشت گردی اور توانائی بحران سے مشترکہ طور پر نمٹا ہو گا۔

پاکستان کو بجلی کی فراہمی کیلئے پرعزم ہیں، سڑک اور ریل کے ذریعے گوادر بندرگاہ سے منسلک ہونا چاہتے ہیں“۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ایران بھی سی پیک (CPEC) کے ذریعے چین اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات سے مستفید ہو گا مگر اس کیلئے اسے ہندوستان کے پاکستان اور چین کے ساتھ معاندانہ عزائم کو مثبت بنانا ہو گا۔ کیونکر سی پیک منصوبے کی اثر پذیری پورے جنوبی ایشیا کی تقدیر بدل سکتی ہے جس کیلئے ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرنا ہو گا اور دونوں ممالک کے حریف جو کدورتیں دونوں ممالک کے درمیان پیدا کرتے رہتے ہیں انکے منفی اثرات سے بچنے کے دونوں ممالک کی قیادتوں کے درمیان مسلسل روابط جاری رہنا چاہئیں۔


پاکستان کی موجودہ سول اور ملٹری لیڈر شپ نے یمن کے تنازعے میں سعودی عرب کے مسلسل اصرار کے باوجود اپنی فوجیں نہیں بھیجیں کیونکہ اس سے ایران کی ناراضی کا خدشہ تھا لہٰذا ایران کو بھی جنرل راحیل شریف کی اس گزارش کو اپنے عملی اقدامات کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے کہ ایران کی سرزمین کو ہندوستان اپنے ناپاک عزائم کیلئے استعمال نہ کرے۔

جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق جنرل راحیل شریف نے ایرانی صدر سے گفتگو کے دوران کہا۔” ہمیں تشویش ہے کہ ’را‘ بلوچستان میں مداخلت کر رہی ہے اور بعض اوقات ایران کی سرزمین بھی اس مقصد کے استعمال ہوتی ہے لہٰذا بھارت کو بتایا جائے کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز رہے۔“اگرچہ ایرانی حکومت کا اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ہو سکتا ہے وہ ہندوستان کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں مگر اصولی طور پر کسی بھی ملک کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔


ایران مسلم ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ گہرے دینی اور ادبی رشتوں میں بندھا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر حسن روحانی کے مطابق دینی ثقافت کے اعتبار سے ایرانیوں کی اسلامی فکر کی تعمیر نو میں علامہ محمد اقبال لاہوری کا حصہ اس حد تک غنی اور قابل تحسین ہے کہ ایران میں سبھی دانشور علامہ اقبال ہی کو یاد کرتے ہیں جبکہ پاکستا ن کی لائبریریوں میں موجود فارسی زبان میں تحریر ہزارہا قلمی نسخے موجو د ہیں ۔

ایران کے شیخ سعدی‘ حافظ شیرازی اور دیگر شعرا نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر ڈاکٹر علی شریعتی کے خیالات اور سوچ و فکر کا بے حد مداح ہوں۔ عمران خان بھی اکثر ڈاکٹر علی شریعتی کے اس قول کو دہراتے رہتے ہیں۔” عزت اور ذلت زندگی اور موت‘ رزق اور تنگدستی کا ماخذ صرف اللہ پاک ہیں“۔ ایرانی علماء اور ماہرین فنون نے ہمارے ہاں علمی سطح پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

دونوں ممالک میں بسنے والے بلوچوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں ۔ ایران اور پاکستان نے مختلف سیاسی تنازعات کے بارے میں اکثر مشترکہ لائحہ عمل اپنایا۔ ایران اور برطانیہ کے درمیان اینگلو ایران آئل کمپنی کو قومیانے کے فیصلے کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا تو وزیراعظم لیاقت علی خاں نے ایرانی اقدام کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا اور برطانیہ کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کی۔

1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ایران نے پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اقوام متحدہ کے فورم میں بھی ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ 1971ء میں شاہ ایران نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کا دورہ کر کے پاکستا نی قوم کے دکھوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ بنگلہ دیش کو بھی ایران نے اس وقت تسلیم کیا جب پاکستان نے اسکو تسلیم کیا اور اسکے علاوہ کشمیر کا مسئلہ جب بھی اقوام متحدہ میں پیش ہوا ایران نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی۔

شاہِ ایران جب بھی پاکستان کا دورہ کرتے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو مشترکہ اعلامیے شامل کرواتے۔ ایرانی دفتر خارجہ بھی بار بار اس بات کا اعادہ کرتا کہ کشمیریوں کو اپنامستقبل خود طے کرنے کا اختیار ملنا چاہئے۔
ایران نے پاکستان میں صنعتی اداروں کے قیام کیلئے وقتاً فوقتاً پاکستان کی مالی امداد کی اور کئی سال تک کم قیمت پر روزانہ 20 ہزار بیرل تیل فراہم کرتا رہا جبکہ 1982ء میں پاکستان نے ایران کو سات لاکھ ٹن سالانہ گندم کی ترسیل کا سلسلہ شروع کیا جو کافی مدت تک جاری رہا۔

1964ء میں استنبول میں ایران‘ ترکی اور پاکستان کے سربراہان نے علاقائی تعاون برائے ترقی (R.C.D) کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور تینوں ممالک کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ بنائی گئی جو کراچی سے شروع ہو کر ترکی کے شہر اوریسہ تک تعمیر کی گئی ہے ،اس کی ایک شاخ ایران میں بندر عباس تک بنائی گئی ہے اور دوسری زاہدان سے بازرگان تک پھیلی ہوئی ہے اگرچہ شروع میں اس تنظیم کی کارکردگی بہتر رہی مگر ایران میں انقلاب کے بعد ایرانی حکومت داخلی مسائل میں الجھ گئی اور اس تنظیم کی کارکردگی اطمینان بخش نہ رہی۔


29 جنوری 1985ء کو تہران میں تینوں ممالک کے اعلیٰ افسروں کے اجلاس میں اس تنظیم کو ختم کرکے نئی تنظیم ”اقتصادی تعاون“ کے نام سے بنا دی گئی۔ پاکستان کے ایران سے اختلافات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسکی بڑی وجہ ایران نے بھارت سے اقتصادی، صنعتی اور ثقافتی تعاون کی راہ اپنائی اور پاکستان نے بھٹو کے دور حکومت میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے اپنے روابط بڑھائے اور لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک میں روزگار کمانے کیلئے چلے گئے۔

آج تیس لاکھ کے قریب پاکستانی افرادی قوت مشرق وسطیٰ کے ممالک میں موجود ہے اور اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان بھیج رہی ہے، اسکے علاوہ پاک ایران تعلقات بگاڑنے میں را نے بلوچ قومیت کے قضیے کو ہوا دی اور گریٹر بلوچستان کے قیام میں ایران کی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ 1971ء میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو شہنشاہ ایران سے ایک بیان منسوب کیا گیا کہ اگر پاکستان مزید ٹوٹا تو ایران اپنے پڑوسی علاقے بلوچستان کو اپنی تحویل میں لے لے گا۔

تاہم بعد میں شہنشاہ ایران نے ان خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اسکے علاوہ 1979ء میں ایران میں جب اسلامی انقلاب آیا تو ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک سے اپنے سفارتی اور سیاسی رابطے ختم کر دئیے، چونکہ پاکستان امریکہ سے قریب تر تھا۔ اس لئے انقلاب کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں گرم جوشی نہ رہی اور زاہدان ریڈیو سے پاکستان کے خلاف امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ۔

مگر اسکے بعد ایرانی حکومت کو پاکستان کی اہمیت کا احساس ہونے لگا اور اکبر ولایتی کے پاکستان کے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی ترویج اور معاشی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کئے گئے مگر بعد میں ایرانی انقلاب کو پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے اسکو روکنے کی کوشش میں پاکستان مذہبی فرقہ بندی کی وجہ سے فرقہ پرستی کی دہشت گردی کا ایسا شکار ہوا ہے جس کا سلسلہ آج تک ختم نہ ہو سکا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Or Iran Taluqat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 April 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.