قیامت خیز زلزلہ۔۔ہیبت طاری

دل پر پتھر رکھ کر اس ناگہانی آفت کے نتائج برداشت کرنا ہوں گے۔۔۔۔ بلاشبہ چھوٹے بڑے شہر اس سانحے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت کے جس قدر تباہی پسماندہ علاقوں کے نصیب میں لکھی گئی اس پربے ساختہ دل سے یہ سوال اٹھتا ہے

بدھ 28 اکتوبر 2015

Qiyamat Khez Zalzala
نعیم الحسن:
10 سال قبل ملک میں تباہی مچانے والے زلزلے کے اثرات اور اس کی افسردہ یادوں کا ماتم کئے ابھی 2ہفتے ہی گزرے تھے کہ گذشہ روز آنے والے زلزلے نے ایک بار پھر ملک کے طول و عرض میں بے کسی لوگوں پر ہیبت طاری کر دی۔ سیلاب ہوں یا زلزلے قدرتی آفات میں ہزاروں نہیں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنتے رہے ہیں۔ تباہی کا یہی منظر 2005 میں بھی دیکھنے میںآ یا جب اس زلزلے نے ملک میں 85 ہزار معصوم انسانوں کو نگل لیا۔

ہزاروں اپاہج ہو گے اور اتنی ہی بڑی تعداد میں خاندان ہمیشہ کے لیے برباد ہو گے۔ بلاشبہ چھوٹے بڑے شہر اس سانحے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت کے جس قدر تباہی پسماندہ علاقوں کے نصیب میں لکھی گئی اس پربے ساختہ دل سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ قدرت کے بے رحم ہاتھوں اس کا نشانہ بھی وہی معصوم لوگ بنتے ہیں جن کو آسائش تو کیا روز مرہ زندگی کی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز کے زلزلے میں ابھی تک ناگہانی آفت کے نقصانات کا اندازہ بھی بڑے شہروں سے حاصل ہونے والی قابل رسائی اور فوری معلومات سے لگایا جا رہا ہے۔ذرائع ابلاغ پر ہلاکتوں کی تعداد اور عمارتوں کو پہنچنے والے نقصانات اگرچہ مسلسل بڑھ ر ہے ہیں لیکن ملک کے دور دراز بالائی حصوں سے معلومات موصول ہونے پر ہی اصل حقائق کا تعین ہو سکے گا۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ 8.1 رچڑ سکیل پر آنے والے زلزلے سے اگر کوہ ہندوکش سے بھارت میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گے ہیں تو لامحالہ اپنے مرکز کے آس پاس اس زلزلے سے کچھ کم شدت کی آفت نہیں ٹوٹی۔

پھر اسی طرح وہی معصوم لوگ لقمہ اجل بنے جن کے لیے ہمیشہ کہا جاتا ہے۔
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
ایک طرف قدرت کا غیض وغضب جاری ہے تو دوسری طرف اس حقیقت سے بھی آنکھ نہیں چرائی جا سکتی کہ ملک کے سیاحتی مقامات پر گذشتہ کئی روز سے تفریخ اور سیاحت کے لیے ملک بھر سے وہاں پہنچنے کے بعد برفباری میں پھسے ہزاروں لوگ حکومت سے مدد کے لیے اپیل کر رہے ہیں۔

شو مئی قسمت ابھی اس ناخوشگوار واقعہ کے اثرات ختم نہیں ہو پائے تھے کہ اب برفباری، لینڈ سلائیڈنگ اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کے نتیجے میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں تک رسائی اور معلومات بھی ناممکن چلی آرہی ہیں۔ پھر بھی ملک بھی میں جو آفت گزر گئی ہے اگلے چند گھنٹوں بعد دل پر پتھر رکھ رک ہمیں اس آفت کے نتائج کو برداشت کرنا ہو گا۔ حکومتی ادارے اور فلاحی تنظیمیں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کمر بستہ ہو کر بحالی کے کام میں مصروف ہیں۔

قدرتی آفات کے خلاف حفاظتی اقدامات کے لیے ماہرین کی رائے ہمیشہ کی طرح صائب سمجھی جاتی ہے لیکن تہذیب و تمدن اور ترقی کے اس دورمیں جہاں انسان نے پہاڑوں سے اترنے والی آبشاروں اور گلیشیئر پر قدرت حاصل کر لے دریاوٴں پر بند باندھ لیے ہیں وہیں انسان کے دامن میں یہ بدنصیبی بھی اس کا حصہ رہی ہے کہ نت نئے تجربات اور آہن وآتش کے کھیل نے نسل انسانی کو غیر فطری ماحول میں دھکیل کر رکھ دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مارچ 2011 میں جاپان میں آنے واے زلزلے اور اس کی ساحلی پٹی سے اٹھنے والے سونامی نے جس طرح بستیوں کو ملیامیٹ کر کے 28 ہزار افراد کو نگل لیا اس پر تبصرہ نگار یہ بات کہے بغیر بھی نہ رہ سکے کہ اس کی وجہ سمندر میں تلف کیے جانے والے وہ ایٹمی ہتھیار ہی تھے جسے ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ممالک نے غرق سمندر کر ہزاروں انسانوں کو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Qiyamat Khez Zalzala is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 October 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.