قومی تشخص کا تحفظ

ہمیں آزاد ہوئے 70 سال ہو چکے ہیں آج تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ہمارا قومی ایجنڈا کیا ہے اور ہمیں کن خطوط پر اپنی زندگی کو استوار کرنا ہے۔ 70 سال سے ہم اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔

جمعہ 29 جنوری 2016

Qomi Tashakhus Ka Tahaffuz
دستیار امیر امجد اعوان:
ہمیں آزاد ہوئے 70 سال ہو چکے ہیں آج تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ہمارا قومی ایجنڈا کیا ہے اور ہمیں کن خطوط پر اپنی زندگی کو استوار کرنا ہے۔ 70 سال سے ہم اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ہر آنے والے لیڈر نے بھیکاریوں کی طرح کاسہ اٹھا رکھا ہے اور بھیک مانگنے میں مصروف ہے کسی نے بھی یہ جرات نہیں کی کہ تمام نعتوں سے مالا مال پاکستان کو اپنے پاوٴں پر کھڑا کرنے کے لیے کوشش کرے اور خود کفالت کی طرف قوم کو لے جائے”ہر کے آمد عمارت ِ نوسا“۔

بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک پر جتنے رہنما بھی مسلط ہوئے ہیں انہوں نے ملک کے لیے کوئی کام نہیں کیا بلکہ غیر ملکی اشاروں پر چلتے رہے جس کے نتیجے میں 1971 میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے ذاتی اغراض کو سامنے رکھا گیا اور ملکی مفادات کی کمر میں چھرا گھونپا گیا۔

(جاری ہے)

بد قسمتی سے پاکستان کو کوئی بھی ایسا رہنما میسر نہیں آیا جس نے پاکستان کے لیے کام کیا ہو۔

1971 کے بعد اگر ضیاء الحق صاحب کے دور کو دیکھا جائے تو انہوں نے افغانستان پر روس کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ پاکستان کے مفاد میں نہیں لڑی بلکہ امریکیوں کو خوش کرنے کے لیے امریکی اسلحہ کی مدد سے روس کے خلاف یہ جنگ لڑی اور اس طرح امریکی مفادات کا تحفظ کیااور انہیں افغانستان سے باہر دھکیل کر روس کی توسیع پسندی کے خواب کو خاک میں ملایا اور اس سلسلے میں طالبان کو روس کے خلاف استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے روس کھلم کھلا پاکستان کے مفادات کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگا۔

اس کے بعد عراق، ایران کی جنگ ہوئی تو واضح طور پر شہنشاہِ ایران کے خاتمے کے بعد پہلی بڑی جنگ تھی۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عراق اور ایران کو لڑایا گیا ۔اس طرح دو بڑی اسلامی طاقتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ، بعد میں امریکہ نے کویت میں عراق کی فوجیں داخل کرنے پر براہِ راست عراق پر حملہ کیااور صدر صدام حسین کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔

مشرق وسطیٰ میں ہونے والی جنگوں کے یہ اثرات پاکستان پر بھی براہِ راست ہوئے۔ امریکہ نے مشرف حکومت کے ذریعے ان جنگوں میں لڑنے کے لیے پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کئے۔ دیکھنا اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ کس کے لیے ہو رہا ہے ۔ اس کے بعد افغانستان کی اسلامی حکومت نافذ ہوئی جسے امریکہ میں ہونے والے حملے کا بہانہ بتا کر ہمیشہ کے لیے نیست ونابود کر دیا اس سلسلے میں پاکستان پر دباوٴ بڑھی اور اس بات پر مجبور کر دیا کہ پاکستان طالبان کے خلاف براہ راست لڑے یا پھر فوجی اڈے استعمال کرنے کی کھلم کھلا اجاز ت دے۔

یہ بات درست ہے کہ کسی قسم کی دہشت گردی امریکہ میں ہو، افغانستان میں ہو، فلسطین میں ہو ،کشمیر میں ہو، پاکستان میں ہو، دہشت گردی ہی کہلائے گی۔ ہندوستان خطے میں کشمیریوں پر جس قتل و غارت کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے اسے پوری دنیا دیکھ کر خاموش کیوں ہے۔بربریت اور دہشت گردی کوئی بھی کرے اسے اس بے عزتی کی اجازت کون دیتا ہے ۔ فلسطین کا قتل عام اگر اسرائیل کرتا ہے تو اسے ہیرو سمجھا جاتا ہے جبکہ اگر کوئی دوسرا ملک اپنی آزادی اور بقا کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو اسے دہشت گرد کہہ دیا جا تا ہے ۔

بے عزتی کا یہ معیار پوری دنیا پر قائم ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ خاموش تماشائیوں کی طرح اب بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ پاکستان خدا کے فضل سے ایک ایٹمی طاقت ہے جو کسی بھی صورت میں اپنی حفاظت کی اہلیت رکھتا ہے۔ ایٹمی دھماکے کرنے پر میاں نواز شریف صاحب کی حکومت کا تختہ کس نے الٹوایا تھا اور اسے گیارہ سال تک کس جرم میں جلا وطن رکھا گیا۔

پاکستان میں جب بھی کوئی لیڈر مثبت قدم اٹھاتا ہے تو اسے جلد یا بدیر کڑی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سر براہی کانفرنس منعقد کر کے تمام اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششیں کیں تو اسے ہمیشہ کے لیے اس جرم میں خاموش کر دیا گیا۔اس طرح ایک عظیم قومی لیڈر غیر ملکی سازشوں کے بھینٹ چڑھ گیا۔ پاکستان میں غیر ملکی ایجنڈوں کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں حکومت اس سے بخوبی باخبر ہے پھر بھی یہ وطن دشمن عناصر ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔

ہم اس وقت جس مشکل گھڑی سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ چین ہمارا قریبی دوست ہے او ہر برے وقت سے پاکستان کی بھر پور مدد کر رہا ہے اور پاکستان بھر میں اس نے ترقیاتی کاموں کے جال بچھا رکھے ہیں ۔ پاکستان میں کسی چیز کی بھی کمی موجود نہیں ہے۔اس ملک میں انتہائی ذہین لوگ اس ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے پریشان ہیں لیکن انہیں بری طرح نظر انداز کیا جا رہاہے۔

پاکستان کے وسائل کو برسر اقتدار طبقہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے ان حالات ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے لیے کسی راستے کا تعین کریں جیسا کہ پہلے بتایا جا کچا ہے کہ غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل محکومیت کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسے ترک کیا جائے اور پاکستان سے قومی تشخص کو قائم رکھنے کے لیے مثبت اقدام کا سہارا لیا جائے تاکہ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے دنیا سے صرف اپنا قومی تشخص بحال کریں بلکہ ایک ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے پُرامن پاکستان کا لوہا دنیا سے منوائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qomi Tashakhus Ka Tahaffuz is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 January 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.