قومی خزانے کے سانپ ”پٹاری “ میں بند

لوٹ کا مال گننے میں گھنٹوں لگ گئے گزشتہ دنون نیب ایک بار پھر قومی منظر نامے پر نمایاں ہو گئی۔ یہ ہوش ربا انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ایسے سرکاری آفیسرز بھی موجود ہیں جن کی دستیاب دولت گننے کے لیے تین کاونٹر مشینوں کے باوجود سات سے بارہ گھنٹے لگتے ہیں۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسائی کو نیب نے ڈرامائی انداز میں ان کے دفتر سے گرفتار کیا

Syed Badar Saeed سید بدر سعید منگل 17 مئی 2016

Qoumi Khazane Ka Sanp Pitari main band
گزشتہ دنون نیب ایک بار پھر قومی منظر نامے پر نمایاں ہو گئی۔ یہ ہوش ربا انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ایسے سرکاری آفیسرز بھی موجود ہیں جن کی دستیاب دولت گننے کے لیے تین کاونٹر مشینوں کے باوجود سات سے بارہ گھنٹے لگتے ہیں۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسائی کو نیب نے ڈرامائی انداز میں ان کے دفتر سے گرفتار کیا تو ان کے گھر سے کرنسی سے بھرے 14 بیگ برآمد ہوئے۔

جو رقم گنی گئی اس میں ایک ہزار سے 5ہزار کے نوٹوں کے ڈھیر کے ساتھ ساتھ ڈالرز کے ڈھیر بھی شامل تھے۔ سیکرٹری خزانہ نے رقم کے یہ بیگزالماریوں، پانی کی ٹینکی ، بیڈ کے نیچے اور کار کی ڈکی میں چھپائے ہوئے تھے۔ رقم کو گننے کے لیے نیب کو تین مشینیں منگوانی پڑیں۔ سیکرٹری خزانہ جس خزانے پر سانپ بنے بیٹھے تھے اس میں ملکی و غیر ملکی کرنسی ، پرائز بانڈز اور کئی کلو سونا برآمد ہوا۔

(جاری ہے)

یہ صرف ایک سرکاری افسر کی داستان ہے۔ یہا ں بھی حالات یہ تھے کہ مشتاق ریئسانی کو کرپشن پر گرفتار کیا گیا تو محکمہ فنانس کے ملازمین نے نیب کی اس کارروائی کے خلاف احتجاج کیا اور دفاتر کی تالہ بندی کر دی۔ یاد رہے مشتاق ریئسانی پر ایک ارب کی کرپشن کا الزام ہے لیکن ابھی ان کے گھر سے 65 کروڑ 18 برآمد ہوئے ہیں جبک کئی کروڑ کی رقم برآمد نہیں ہوئی۔


ایک طرف تو افسر شاہی کے چلتے پرزے کے کارنامے ہمارے سامنے ہیں تو دوسری طرف دیگر افراد کا رویہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ کرپٹ افسر کو گرفتار کرنے پر محکمہ فنانس کے ملازمین احتجاج کرتے رہے تو دوسرے جانب صوبائی وزیر مال بلوچستان جعفر مندوخیل بھی نیب کے اس چھاپے پر برہم ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کا طریقہ کار غلط ہے نیب ایسے کیسے چھاپہ مار سکتی ہے۔

غالباََ ان کا خیال تھا کہ نیب چھاپے سے پہلے وزیر محترم کو خبر کرتی۔ اسی طرح دیگر کئی افراد کو بھی بتایا جاتا۔پھر اگر چھاپہ مارا جاتا تو جو صورتحال ہوتی اس کا سب کو اندازہ ہو سکتا ہے۔ جس سطح کی کرپشن ہوئی اس میں ”حصہ“ دیئے بنا کام نہیں چلتا ۔ نیب کی اطلاع پہلے کسی ”حصہ دار“ کو ملتی اور پھر چھاپا مارا جاتا تو یقینا سیکرٹری خزانہ قرض کی ایک فہرست تھامے یہ رونا روتے ملتے کہ ان کی تنخواہ ختم ہو گئی ہے اور اگلی تنخواہ ملنے تک یار دوستوں سے اُدھار لے رہا ہوں۔

بد قسمتی سے اس کرپشن پر جن وزیر ما کو اخلاقی طور پر مستعفی ہونا چاہیے وہ برہم ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم سمیت چار ملزمان پر 462 ارب کی کرپشن کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ اسی طرح سابق ایم ڈی پیپکو طاہر چیمہ کو بھی 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ چندماہ سے نیب متحرک ہوئی ہے تو دوسرے دن ایسی ہی گرفتاریوں کی خبریں آرہی ہیں۔

افسر شاہی اور سیاستدانوں نے جس طرح قومی خزانے کو لوٹ کا مال سمجھ رکھا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قومی خزانے کے محافظ سمجھے جاتے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ یہ خزانے پرسانپ بنے بیٹھے ہیں اور عوام کو ڈس رہے ہیں۔ ابھی نہ جانے کتنے سانپ ہماری آستینوں میں پل رہے ہیں۔ ایک طرف ملک قرض پر چلایا جاتا ہے اور دوسری طرف سرکاری ملازم اور عوامی خادم اربوں روپے ہضم کر لیتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کرپشن میں ملوث بااثر افراد کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے اور اس معاملے میں کسی دباو میں نہ آنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اور مشتاق ریئسانی اس کی واضح مثالیں ہیں لیکن ابھی نیب میں مزید کئی اہم فائلوں پر کام ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب نیب ماضی کی طرح اطلاع دے کر کاغذی کاروائی نہیں کرے گی بلکہ یہ اطلاع محض اندرونی پالیسی سازوں کو دی جائیگی اور پھر ریکی کے بعد براہ راست کاروائی کی جائیگی ۔

اس سلسلے میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں چند مزید اہم افراد کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو معاشرے میں بااثر سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی کرپشن کے خلاف فائل ورک مکمل ہو چکا ہے۔ اب ذمہ داران کو صرف “گرین سگنل“ کا انتظار ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Qoumi Khazane Ka Sanp Pitari main band is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 May 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.