”را“ اور پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک

پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ بھارت کو ایک اچھے پڑوسی کا درجہ دیکر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کئے جائیں۔اس مقصد کیلئے پاکستان کی ہر حکومت نے سر توڑ کوششیں کیں۔بعض اوقات اپنے مفادات کو قربان کر کے بھی بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں مگ

ہفتہ 26 مارچ 2016

RAW Or Pakistan main DehshaatGardi Ka Network
سکندر خان بلوچ:
پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ بھارت کو ایک اچھے پڑوسی کا درجہ دیکر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کئے جائیں۔اس مقصد کیلئے پاکستان کی ہر حکومت نے سر توڑ کوششیں کیں۔بعض اوقات اپنے مفادات کو قربان کر کے بھی بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر پاکستان کی بدقسمتی کہ ہمارے تمام تر مخلصانہ ارادے اور کوششیں کبھی بارآور ثابت نہیں ہوئیں ۔

بھارت میں معمولی سے معمولی واقعہ بھی رونما ہوتا ہے تو بغیر سوچے سمجھے ،بغیر حالات کا تجزیہ کئے ہوئے انگلی پاکستان کیخلاف اٹھ جاتی ہے اور تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں تعطل آجاتا ہے۔
پھر بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ بھی شروع کر دی جاتی ہے جس سے اکثر ہمارے بے گناہ سویلین شہید ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

بھارت نے کئی بار بلااشتعال فائرنگ نہ کرنے کے معاہدے بھی کئے اور وعدے بھی لیکن تمام معاہدے اور وعدے بے مقصد ثابت ہوئے ۔

وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوگئے۔بھارتی رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت نے آج تک نہ پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے نہ تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔پاکستان کے مفادات کو زک پہنچا نا بھارت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ اس لئے ہم جتنی بھی مخلصانہ کوششیں کر لیں پاکستان بھارت دوستی ہوتی یا صرف پڑوسی ہونے کے ناطے حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آتے۔


اب پٹھانکوٹ حملے کی مثال ہی لے لیں۔حملہ ابھی ختم بھی نہیں ہواتھاکہ الزام پاکستان پر لگ گیا۔ جیش محمد کو مورودالزام ٹھہراکر یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کاروائی قراردی گئی۔دوسرے ہی دن اس بیان میں مزید اضافہ کرکے پاکستان کی ایجنسیوں کو ملوث کر دیا گیا۔اس واقعہ سے پہلے بھارت سے مذاکرات کی تاریخ طے تھی۔اس واقعہ کا بہانہ بنا کر مذاکرات ختم کر دئیے گئے۔


اس معاملہ میں پاکستان نے بھارت کی ہر قسم کی مدد کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ عملی طور پرمدد کا مظاہرہ بھی کیا۔ مناسب ثبوت نہ ہونے کے باوجود فوری تفتیش شروع کی گئی۔جیش محمد کے رہنما سمیت کئی افراد کو محض شک کی بنیاد پر حراست میں بھی لیا گیا اور پھر بعد میں گوجرانوالہ میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔واضح ثبوت کی غیر موجودگی میں اس سے زیادہ کچھ کرنا ممکن ہی نہ تھا۔

اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی بھارتی لیڈروں کی تسلی نہ ہوئی۔چھوٹے بڑے تمام لیڈروں نے پاکستان مخالف بیانات کو اپنا وِطرہ بنا لیا۔اِن بیانات سے پریس کو بھی شہہ ملی۔
پریس اور میڈیا نے پاکستان کیخلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی لیکن پاکستان نے پھر بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی قسم کے سخت بیانات یا الزام تراشیوں سے احترازکیا ورنہ حالات مزید بگڑ سکتے تھے۔

ویسے تو بھارت کے کئی لیڈروں نے بیانات دیکر پاکستان کیخلاف دل کا غبار نکالا لیکن سب سے زیادہ اور سخت بیانات بھارتی وزیر دفاع منوہرپاریکرنے دیئے ۔جنہوں نے ایک بار نہیں پاکستان سے بدلہ لینے کی کئی بار دھمکیاں بھی دیں۔ ان کا بیان تھا ” ہم پاکستان پر ایسا کاری زخم لگائیں گے کہ وہ یاد رکھے گا“ یا ”ہم ایسی جگہ ہٹ کرینگے جہاں پاکستانیوں کو سب سے زیادہ درد ہوگا “ وغیرہ۔

بھارتی آرمی چیف نے بھی یہ کہہ کر ان بیانات میں اپنا نام لکھوایا ” پاکستان کیخلاف سخت موقف اختیار کیا جائیگاہم بدلہ لینے کیلئے تیار ہیں“۔
اگر بھارتی لیڈروں کے تمام بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو دو چیزیں سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان اس حملے میں ڈائرکٹ ملوث ہے کیونکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی پشت پر پاکستانی ایجنسیاں کار فرما تھیں۔

اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان نے جان بوجھ کر یہ حملہ کرایا ہے۔
تو یوں پاکستان ملزم ٹھہرا اور دوسرا یہ کہ پاکستان سے بدلہ لینا لازمی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت یہ بدلہ کیسے لینا چاہتا ہے؟کیا وہ بلاواسطہ پاکستان پر فوجی حملہ کرنا چاہتا ہے جس کا یقینا پاکستان منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔لہٰذا بھارت فوجی حملہ کرنے کی تو جرات نہیں کریگااور بدلہ لینے کا دوسرا ذریعہ ہے ایجنسیوں کا استعمال۔

اس امر میں تو کوئی شک نہیں بھارتی ” را “ اور دیگر خفیہ ایجنسیاں پاکستان کیخلاف پہلے ہی پوری شدت سے سر گرم ہیں۔
منوہر پاریکر کے بیان کے بعد سے پاکستان میں یکے بعد دیگرے تا دم تحریر چار مختلف مقامات پر دہشت گرد ی کے حملے ہو چکے ہیں جن میں کم ازکم 70بے گناہ لوگ شہید ہو ئے۔ زخمیوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہے۔ اس وقت فاٹا ،خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے ۔

افغانستان میں پاکستان مخالف لابی اور تحریک طالبان کے مختلف گروپس کو جس طرح ابھارا جا رہا ہے انکی مدد کی جا رہی ہے۔: یہ سب ” را“ اور بھارتی ایجنسیوں کی کارستانیاں ہیں۔ جس انداز میں یہ ایجنسیاں ملوث ہیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ ضربِ عضب کو ناکام بنایا جائے اور دوسرا چین اور پاکستان کے تعاون کو سبوتاڑ کیا جائے تاکہ اقتصادی راہداری نہ بن سکے ۔


پاکستان میں ” را “ کے ملوث ہونے کا دوسرا بڑا ثبوت حال ہی میں لندن میں سامنے آیا ہے۔ پچھلے ایک سال سے لندن پولیس ایم کیو ایم کیخلاف کچھ الزامات کی تفتیش کر رہی ہے۔حال ہی میں سامنے آنیوالی پولیس دستاویزات میں سے ایک رپورٹ کے مطابق ”را“ ایم کیو ایم کو 8لاکھ پونڈ سالانہ ادا کر تی رہی ہے۔وہ ایم کیو ایم سے ڈائرکٹ رابطے میں رہتی تھی۔

”را“ ہی نے ایم کیو ایم کو پالا اور سنبھالا۔یہاں قدرتی طور پریہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ آخر کار”را“ ایم کیو ایم پر اتنی مہربان کیوں تھی؟ یہ مہربانی اور باقاعدگی سے رقم کی ادائیگی بے مقصد نہیں ہو سکتی۔ اس کا واحد مقصد تھا کہ ایم کیو ایم کے ذریعے پاکستان خصوصاََ کراچی کے حالات خراب کئے جائیں۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان جیسی وارداتوں کے ذریعے کراچی کا امن تباہ کیا جائے۔

پاکستان کو کمزور کر کے تباہ کیا جائے۔ پاکستان کے مزید ٹکڑے کیے جائیں۔
بدقسمتی سے را حالات خراب کرنے میں کافی کامیاب رہی ہے۔ بھارتی حکومت اور ”را“ کے دو بہت بڑے ہتھیار افغان حکمران جو ہمیشہ پاکستان سے خفا رہتے ہیں اور دوسرا تحریک طالبان کے مختلف گروپس ہیں جنہیں پیسے اور ہتھیار دے کر را دہشتگردی کیلئے پاکستان بھیجتی ہے۔

پشاور میں 16 مارچ کو ہونیوالے بس دھماکے کی ذمہ داری منگل باغ کے لشکر اسلام نے قبول کی ہے۔
منگل با غ اور اسکے لشکر کی پناہ گاہیں اور بارودی انفراسٹرکچر خیبر ایجنسی میں تباہ کئے جا چکے ہیں۔ یہ لوگ یہاں سے بھاگ کر افغانستان میں رہائش پذیر ہیں جہاں را انہیں اور تحریک طالبان کے دیگر گروپس کو اپنے مقاصد کیلئے پاکستان کیخلاف استعمال کر رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ”را“ پاکستان کیخلاف پور ی طرح ملوث ہے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔”را“ کو افغان ایجنسیوں سمیت دیگر کئی فرینڈلی ایجنسیوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے ۔اس ضمن میں پاکستانی ایجنسیوں کو بہت الرٹ ہو کر کام کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

RAW Or Pakistan main DehshaatGardi Ka Network is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.